۔ (۱۱۷۲۳)۔ عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَی الْقَصْرَ قَالَ: انْقَطَعَ الصُّوَیْتُ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَہُ وَأَوْرٰی نَارَہُ وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْہَمٍ، وَقِیلَ لِسَعْدٍ: إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ: ذَاکَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ، فَخَرَجَ إِلَیْہِ فَحَلَفَ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، فَقَالَ: نُؤَدِّیْ عَنْکَ الَّذِی تَقُولُہُ، وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِہِ، فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ أَقْبَلَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ أَنْ یُزَوِّدَہُ فَأَبٰی، فَخَرَجَ فَقَدِمَ عَلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَجَّرَ إِلَیْہِ فَسَارَ ذَہَابَہُ وَرُجُوعَہُ تِسْعَ عَشْرَۃَ، فَقَالَ: لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِکَ لَرَأَیْنَا أَنَّکَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا، قَالَ: بَلٰی أَرْسَلَ یَقْرَأُ السَّلَامَ وَیَعْتَذِرُ وَیَحْلِفُ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، قَالَ: فَہَلْ زَوَّدَکَ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تُزَوِّدَنِی أَنْتَ، قَالَ: إِنِّی کَرِہْتُ: أَنْ آمُرَ لَکَ، فَیَکُونَ لَکَ الْبَارِدُ وَیَکُونَ لِی
الْحَارُّ، وَحَوْلِی أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَدْ قَتَلَہُمْ الْجُوعُ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((لَا یَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِہِ۔)) (مسند احمد: ۳۹۰)
عبایہ بن رفاعہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کواطلاع پہنچی کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے جب محل تعمیر کیا تو کہا: اب لوگوں کی آوازیں (شور آنا) بند ہوگئی ہیں۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو ادھر بھیجا، وہ آئے تو انہوںنے آتے ہی تیاری کی، ایک درہم کی لکڑی خریدی اور اس دروازے کو آگ لگا دی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو بتلایا گیا کہ ایک آدمی نے یہ کام کیا ہے، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ محمد بن مسلمہ بن رضی اللہ عنہ ہیں۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں گئے اور جا کر کہا:اللہ کی قسم! میں نے ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، ہم آپ کی اس بات کو امیر المومنین تک پہنچا دیں گے اور ہمیں جو حکم ہوا ہے، ہم اس کی تعمیل کریں گے، چنانچہ انہوں نے دروازے کو آگ لگا دی۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے محمد بن مسلمہ کو مال کی پیش کش کی تو انہوںنے کچھ لینے سے انکار کر دیا۔ وہاں سے روانہ ہو کر محمد بن مسلمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے، وہ بہت جلد واپس آئے تھے، ان کے جانے اور واپسی میں صرف انیس دن لگے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے بارے میں حسن ظن نہ ہوتا تو ہم سمجھتے کہ آپ نے ہماری طرف سے مفوضہ ذمہ داری کو پورے طور پر سر انجام نہیں دیا۔محمد بن مسلمہ نے کہا: کیوں نہیں، میں اپنی ذمہ داری کو بجا طور پر کیوں نہ ادا کرتا۔ انھوں نے کہا: سیدنا سعد رضی اللہ عنہ آ پ کو سلام کہتے ہیں اور معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: آیا انہوںنے آپ کو زادِ راہ دیا ہے یا نہیں دیا؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: جی نہیں دیا۔ آپ نے خود مجھے زاد راہ کیوں نہ دیا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تمہارے لیے زادراہ دیئے جانے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم تو فائدہ اٹھائو اور اہل مدینہ کی حاجت کی وجہ سے ذمہ داری مجھ پر رہے، میرے ارد گرد یہ اہل مدینہ موجود ہیں، جنہیں بھوک کی شدت نے قتل کر رکھا ہے۔ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سن چکا ہوں کہ کوئی آدمی اکیلا سیر ہو کر نہ کھائے کہ اس کا ہم سایہ بھوکا ہو۔
Musnad Ahmad, Hadith(11723)