۔ (۱۱۷۳۶)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْعَبْسِیُّ کُوفِیٌّ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، حَدَّثَنِی سَفِینَۃُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((الْخِلَافَۃُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکًا بَعْدَ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ لِی سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ وَخِلَافَۃَ عُمَرَ وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ وَأَمْسِکْ خِلَافَۃَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، قَالَ: فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِینَ سَنَۃً، ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْخُلَفَائِ فَلَمْ أَجِدْہُ یَتَّفِقُ لَہُمْ ثَلَاثُونَ، فَقُلْتُ لِسَعِیدٍ: أَیْنَ لَقِیتَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ: لَقِیتُہُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ ثَمَانِ لَیَالٍ أَسْأَلُہُ عَنْ أَحَادِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِکَ سَمَّانِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَفِینَۃَ، قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاکَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ
خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَعَہُ أَصْحَابُہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِمْ مَتَاعُہُمْ فَقَالَ: ((لِی ابْسُطْ کِسَائَکَ؟)) فَبَسَطْتُہُ فَجَعَلُوْا فِیہِ مَتَاعَہُمْ ثُمَّ حَمَلُوہُ عَلَیَّ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((احْمِلْ فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِینَۃُ۔)) فَلَوْ حَمَلْتُ یَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِیرٍ أَوْ بَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ أَوْ أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ أَوْ سِتَّۃٍ أَوْ سَبْعَۃٍ مَا ثَقُلَ عَلَیَّ إِلَّا أَنْ یَجْفُوْا۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۴)
سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں خلافت کا زمانہ تیس سال تک ہے۔ اس کے بعد ملوکیت آجائے گی۔ پھر سیدنا سفینہ نے مجھ (سعید بن جمہان) سے کہا: تم سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی کے ادوار خلافت کو شمار کرو، ہم نے ان تمام ادوار کے مجموعہ کو تیس سال پایا۔ میں نے ان سے بعد کے خلفاء کے ادوار پر بھی نظر ڈالی، مگر مجھے ان میں تیس سال پورے ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ میں نے (یعنی حشرح بن نباتہ عبسی کوفی نے)سعید سے دریافت کیا: آپ کی سفینہ سے کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ انہوںنے بتلایا کہ حجاج کے دور حکومت میں بطن نخل میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کے ہاں آٹھ رات قیام کیا تھا۔ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کے بارے میں دریافت کرتا رہا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا اصل نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میں آپ کو نہیں بتلائوں گا، البتہ یہ بات ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا نام سفینہ رکھا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارا نام سفینہ کس وجہ سے رکھا ؟ انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سفر پر جا رہے تھے، سامان اٹھانا ان کے لیے بوجھ اور مشقت کا سبب بنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی چادر بچھائو، میں نے چادر بچھائی تو سب لوگوں نے اپنا اپنا سامان اس میں ڈال کر مجھے اٹھوا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھا لو، تم تو سفینہ (یعنی کشتی) ہو۔ آپ کے اس کلام کی برکت سے میں اس دن ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ یا سات اونٹوں کے اٹھائے جانے والے وزن کے برابر بھی اٹھاتا تو مجھے بوجھل محسوس نہ ہوتا۔ الایہ کو لوگ (قافلہ) مجھ سے آگے نکل جاتے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11736)