۔ (۱۱۷۷۶)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، أَخْبَرَنَا أَیُّوبُ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَیْسِ کَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ، ثُمَّ فَارَقَہُمْ قَالَ: دَخَلُوْا قَرْیَۃً فَخَرَجَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَبَّابٍ ذَعِرًا یَجُرُّ رِدَائَہُ، فَقَالُوْا: لَمْ تُرَعْ، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ رُعْتُمُونِی، قَالُوْا: أَنْتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ خَبَّابٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَہَلْ سَمِعْتَ مِنْ أَبِیکَ حَدِیثًا یُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تُحَدِّثُنَاہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُہُ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّہُ ذَکَرَ فِتْنَۃً الْقَاعِدُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِی وَالْمَاشِی فِیہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، قَالَ: فَإِنْ أَدْرَکْتَ ذَاکَ فَکُنْ عَبْدَ اللّٰہِ الْمَقْتُولَ، قَالَ أَیُّوبُ: وَلَا أَعْلَمُہُ إِلَّا قَالَ: وَلَا تَکُنْ عَبْدَ اللّٰہِ الْقَاتِلَ، قَالُوْا: أَأَنْتَ سَمِعْتَ ہَذَا مِنْ أَبِیکَ یُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدَّمُوہُ عَلٰی ضَفَّۃِ
النَّہَرِ فَضَرَبُوْا عُنُقَہُ فَسَالَ دَمُہُ کَأَنَّہُ شِرَاکُ نَعْلٍ مَا ابْذَقَرَّ وَبَقَرُوْا أُمَّ وَلَدِہِ عَمَّا فِی بَطْنِہَا۔ (مسند احمد: ۲۱۳۷۸)
حمید بن ہلال سے روایت ہے، وہ قبیلہ عبد القیس کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، جو شروع میں خوارج کے ساتھ تھا، پھر ان سے الگ ہو گیا تھا، اس سے مروی ہے کہ خوارج ایک بستی میں داخل ہوئے، سیدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے خوف زدہ سے ہو کر اس بستی سے باہر نکل گئے۔ خوارج نے ان سے کہا: آپ پریشان نہ ہوں، آپ گھبرائیں نہیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔انہوںنے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ خوارج نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی خباب رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، خوارج نے پوچھا: کیا آپ نے اپنے والد سے کوئی حدیث سنی ہو، جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہوں، براہ کرم آپ ہمیں وہ حدیث تو بیان کر دیں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں، میں نے اپنے والد کو سنا، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کیا کہ اس فتنہ کے دوران کھڑے آدمی کی بہ نسبت بیٹھا رہنے والا اور چلنے والے کی نسبت کھڑا رہنے والا اور فتنہ میں دوڑنے والے کی بہ نسبت عام رفتار سے چلنے والابہتر ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا اس قسم کے حالات سے سامنا ہو تو اللہ کا مقتول بندہ بن جانا۔ حدیث کے راوی حمید کے شاگرد ایوب نے کہا: مجھے یقین ہے کہ حمید بن ہلال نے اس سے آگے یہ بھی بیان کیا کہ تم اللہ کے قاتل بندے نہ بننا۔ خوارج نے پوچھا:کیا آپ نے یہ حدیث برا ہ راست اپنے والد سے سنی ہے کہ وہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی بالکل، عبدالقیس کا ایکفرد بیان کرتا ہے کہ یہ حدیث سننے کے باوجود انہوںنے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو نہر (دریا) کے کنارے لے جا کر ان کی گردن اڑا دی اور ان کا خون دریا کے پانی میں اس طرح چلا گویاکہ وہ جوتے کا تسمہ ہے، (یعنی وہ پانی کے اندر حل نہ ہوا اور دھاگے یا تسمے کی مانند پانی میں بہتا رہا۔) اور ان ظالموں نے ان کی ام ولد کا پیٹ بھی پھاڑ ڈالا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11776)