۔ (۱۱۸۰۲)۔ عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ الْحَرُورِیُّ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ الصِّبْیَانِ، وَعَنِ الْخُمُسِ لِمَنْ ہُوَ؟ وَعَنِ الصَّبِیِّ مَتٰی یَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ؟ وَعَنِ النِّسَائِ ہَلْ کَانَ یُخْرَجُ بِہِنَّ أَوْ یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ؟ وَعَنِ الْعَبْدِ ہَلْ لَہُ فِی الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ؟ قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَمَّا الصِّبْیَانُ فَإِنْ کُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْکَافِرَ مِنَ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْہُمْ، وَأَمَّا الْخُمُسُ فَکُنَّا نَقُولُ: إِنَّہُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّہُ لَیْسَ لَنَا، وَأَمَّا النِّسَائُ فَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَخْرُجُ مَعَہُ بِالنِّسَائِ فَیُدَاوِینَ الْمَرْضٰی وَیَقُمْنَ عَلَی الْجَرْحٰی وَلَا یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ، وَأَمَّا الصَّبِیُّ فَیَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ، وَأَمَّا الْعَبْدُ فَلَیْسَ لَہُ مِنَ الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ وَلٰکِنَّہُ قَدْ کَانَ یُرْضَخُ لَہُمََََََََْ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نجدہ حروری نے ان کے نام ایک خط لکھ کر ان سے یہ مسائل دریافت کئے: بچوں کو قتل کرنا کیسا ہے؟ خمس کے اہل کون لوگ ہیں؟بچے پر سے یتیمی کا اطلاق کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیںیا نہیں؟ کیا مال غنیمت میں غلام کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواباً تحریر کیا: اگر تم خضر ہو اور جانتے ہو کہ بچہ بڑا ہو کر کافر بنے گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو ، رہا مسئلہ خمس کا تو ہم تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ہمارا یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق ہے، اب ہم میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا حق نہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواتین کو اپنے ساتھ جہاد میں لے جایا کرتے تھے، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتیں، مریضوںکی تیمارداری کرتیں، البتہ جنگ میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔بچہ جب بالغ ہو جائے تو اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔غلام کا مال غنیمتمیں کچھ حصہ نہیں، البتہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ بطور عطیہ دیا جاتا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11802)