۔ (۱۱۸۰۳)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ بْنُ عَامِرٍ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ أَشْیَائَ، فَشَہِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِینَ قَرَأَ کِتَابَہُ وَحِینَ کَتَبَ جَوَابَہُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّہُ عَنْ شَرٍّ یَقَعُ فِیہِ مَا کَتَبْتُ إِلَیْہِ وَلَا نَعْمَۃَ عَیْنٍ، قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ إِنَّکَ سَأَلْتَنِی عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ ہُمْ؟ وَإِنَّا کُنَّا نُرٰی قَرَابَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ہُمْ فَأَبٰی ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلَہُ عَنِ الْیَتِیمِ مَتٰی یَنْقَضِی یُتْمُہُ؟ وَإِنَّہُ إِذَا بَلَغَ النِّکَاحَ، وَأُونِسَ مِنْہُ رُشْدٌ، دُفِعَ إِلَیْہِ مَالُہُ وَقَدِ انْقَضٰی یُتْمُہُ، وَسَأَلَہُ ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقْتُلُ مِنْ صِبْیَانِ الْمُشْرِکِینَ أَحَدًا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمْ یَقْتُلْ مِنْہُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ الَّذِی قَتَلَہُ، وَسَأَلَہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ وَالْعَبْدِ ہَلْ کَانَ لَہُمَا سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟ وَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِلَّا أَنْ یُحْذَیَا مِنْ غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۵)
یزید بن ہرمز سے مروی ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر ان سے چند مسائل دریافت کئے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جب اس کا خط پڑھ کر اس کے سوالات کے جوابات لکھوائے تو میں بھی وہاں موجود تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ جس شر یعنی برائی اور فتنے میں گرر ہا ہے، اگر میں اس کو اس سے بچانا نہ چاہ رہا ہوتا تو میں اس کے خط کا جواب نہ دیتا اور نہ اس طرح اسے خوش کرتا، چنانچہ انہوںنے اسے لکھا کہ تم نے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان قرابت داروں کے حصوں کے متعلق دریافت کیاہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیاہے، کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں، ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ ان قرابت داروں سے ہم ہییعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب مراد ہیں۔ لیکن اب ہماری قوم اس بارے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتی،نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ یتیم سے یتیمی کا اطلاق کب زائل ہوتا ہے؟انہوںنے لکھا کہ جب بچہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور سمجھدار ہوجائے، تب اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے، اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے جواباً لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے کسی بچے کو قتل نہیں کیا، تم بھی ان میں سے کسی کو قتل نہ کرو، الایہ کہ تم خضر کی طرح علم رکھتے ہو(کہ فلاں بچہ کافر ہی ہو گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو)، اسی طرح نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مال غنیمت میں عورتوں اور غلاموں کا بھی حصہ مقرر ہے؟ جبکہ وہ میدان جنگ میں حاضر ہوں؟ انھوں نے لکھا کہ عورتوں اور غلاموں کا حصہ مال غنیمت میں سے مقرر نہیں ہے، البتہ ان کو مسلمانوں کے اموال غنیمت میں سے (حوصلہ افزائی کے طور پر) کچھ حصہ بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11803)