۔ (۱۱۸۳۹)۔ وَعَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیِدٍ قَالَ: کَانَتْ اُمُّ الْعَلَائِ الْاَنْصَارِیَّۃُ تَقُوْلُ: لَمَّا قَدِمَ الْمُہَاجِرُوْنَ الْمَدِیْنَۃَ اِقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ عَلٰی سُکْنَاھُمْ، فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ فِی السُّکْنٰی، قَالَتْ أُمُّ الْعَلَائِ: فَاشْتَکٰی عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ عِنْدَنَا فَمَرَّضْنَاہُ حَتّٰی إِذَا تُوُفِّیَ أَدْرَجْنَاہُ فِی أَثْوَابِہِ، فَدَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقُلْتُ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکَ یَا أَبَا السَّائِبِ شَہَادَتِی عَلَیْکَ لَقَدْ أَکْرَمَکَ اللَّہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((وَمَا یُدْرِیکِ أَنَّ اللّٰہَ أَکْرَمَہُ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: لَا أَدْرِی بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَائَہُ الْیَقِینُ مِنْ رَبِّہِ، وَإِنِّی لَأَرْجُو الْخَیْرَ لَہُ، وَاللّٰہِ! مَا أَدْرِی وَأَنَا رَسُولُ اللّٰہِ مَا
یُفْعَلُ بِی۔)) (قَالَ یَعْقُوبُ: بِہِ) قَالَتْ: وَاللّٰہِ لَا أُزَکِّی أَحَدًا بَعْدَہُ أَبَدًا، فَأَحْزَنَنِی ذٰلِکَ فَنِمْتُ فَأُرِیتُ لِعُثْمَانَ عَیْنًا تَجْرِی، فَجِئْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَخْبَرْتُہُ ذٰلِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((ذَاکَ عَمَلُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۰۴)
سیدنا خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام علاء انصاریہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو انصار نے ان کو اپنے ہاں رہائش دینے کے لیے قرعہ اندازی کی تو سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا نام ہمارے حصہ میں نکل آیا، لیکن ہوا یوں کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں بیمار پڑ گئے۔ ہم نے ان کا خوب علاج معالجہ کیا،، لیکن ان کا انتقال ہو گیا،ہم نے ان کو کفن کے کپڑوں میں لپیٹا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میں نے کہا: اے ابو السائب! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میں آپ کے بارے میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے آپ کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آپ کو کیا علم کہ اللہ نے ان کی عزت و تکریم کی ہے۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، میں تو اس بارے میں کچھ نہیں1 جانتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے رب کی طرف سے موت آئی، مجھے اس کے ! صحیح بخاری (۳۹۲۹) میں الفاظ اس طرح ہیں: لَا اَدْرِیْ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُقِیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَمَنْ؟ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نہیں جانتی تو اور کون (جانتا ہے)؟ ام العلاء انصاریہ کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے گھر میں اس کے رہنے کی وجہ سے، مجھے اس کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور میرے خیال کے مطابق یہ نیک آدمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ کسی کے بارے اخروی لحاظ سے حتمی اور قطعی رائے کا اظہار نہیں ہونا چاہیے ہاں اچھے انجام کی امید ظاہر کی جاسکتی ہے۔ (عبداللہ رفیق)
بارے میں اللہ سے خیر کی امید ہے۔ اللہ کی قسم! میں اگرچہ اللہ کا رسول ہوں، لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ کل کلاں میرے ساتھ اور اس کے ساتھ کیا پیش آئے گا؟ ام العلائ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں آج کے بعد کسی کی صفائی پیش نہیں کروں گی، اس بات سے مجھے غم لاحق ہوا، میں سوئی ہوئی تھی کہ خواب میں مجھے ایک بہتا چشمہ دکھایا گیا کہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جا کر آپ کو اس کے متعلق بتلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کا عمل ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11839)