۔ (۱۱۸۴۲)۔ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ: حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکَ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْکَ، قَالَ: نَعَمْ، لَمَّا بَلَغَنِی خُرُوجُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَکَرِہْتُ خُرُوجَہُ کَرَاہَۃً شَدِیدَۃً خَرَجْتُ حَتّٰی وَقَعْتُ نَاحِیَۃَ الرُّومِ، وَقَالَ یَعْنِی یَزِیدَ بِبَغْدَادَ: حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی قَیْصَرَ، قَالَ: فَکَرِہْتُ مَکَانِی ذٰلِکَ أَشَدَّ مِنْ کَرَاہِیَتِی لِخُرُوجِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَتَیْتُ ہٰذَا الرَّجُلَ، فَإِنْ کَانَ کَاذِبًا لَمْ یَضُرَّنِی، وَإِنْ کَانَ صَادِقًا عَلِمْتُ، قَالَ: فَقَدِمْتُ فَأَتَیْتُہُ فَلَمَّا قَدِمْتُ قَالَ النَّاسُ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ لِی: ((یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ أَسْلِمْ تَسْلَمْ۔)) ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی عَلٰی دِینٍ، قَالَ: ((أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِکَ مِنْکَ۔)) فَقُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی؟ قَالَ: ((نَعَمْ، أَلَسْتَ مِنٰ الرَّکُوسِیَّۃِ، وَأَنْتَ تَأْکُلُ مِرْبَاعَ قَوْمِکَ؟)) قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: ((فَاِنَّ ھٰذَا لَایَحِلُّ لَکَ فِیْ دِینِکَ۔)) قَالَ: فَلَمْ یَعْدُ أَنْ قَالَہَا فَتَوَاضَعْتُ لَہَا، فَقَالَ: ((أَمَا إِنِّی أَعْلَمُ مَا الَّذِی یَمْنَعُکَ مِنَ الْإِسْلَامِ، تَقُولُ: إِنَّمَا اتَّبَعَہُ ضَعَفَۃُ النَّاسِ،
وَمَنْ لَا قُوَّۃَ لَہُ، وَقَدْ رَمَتْہُمْ الْعَرَبُ، أَتَعْرِفُ الْحِیرَۃَ؟)) قُلْتُ: لَمْ أَرَہَا وَقَدْ سَمِعْتُ بِہَا، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُتِمَّنَّ اللّٰہُ ہٰذَا الْأَمْرَ حَتّٰی تَخْرُجَ الظَّعِینَۃُ مِنَ الْحِیرَۃِ حَتّٰی تَطُوفَ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِجِوَارِ أَحَدٍ، وَلَیَفْتَحَنَّ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ، کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَلَیُبْذَلَنَّ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ۔)) قَالَ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: فَہٰذِہِ الظَّعِینَۃُ تَخْرُجُ مِنَ الْحِیرَۃِ فَتَطُوفُ بِالْبَیْتِ فِی غَیْرِ جِوَارٍ، وَلَقَدْ کُنْتُ فِیمَنْ فَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَکُونَنَّ الثَّالِثَۃُ لِأَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ قَالَہَا۔ (مسند احمد: ۱۸۴۴۹)
ابو عبیدہ سے روایت ہے، وہ ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: میں نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا کہ مجھ تک آپ کی طرف سے ایک بات پہنچی ہے، میں اسے آپ سے براہ راست سماع کرنا چاہتا ہوں، انہوںنے کہا: جی ٹھیک ہے، جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کی اطلاع ملی تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اچھا نہ لگا، مجھے اس سے شدید کراہت ہوئی، میں یہاں سے بھاگ نکلا اور روم کے علاقے میں جا پہنچا، حدیث کے راوییزید نے بغداد میںیوں بیان کیا:میں یہاں سے بھاگ کر قیصر روم کے ہاں چلا گیا، مگر مجھے پہلے سے بھی زیادہ پریشانی ہوئی، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اسی آدمی کے ہاں چلا جائوں، اگر وہ جھوٹا ہوا تو مجھے اس کا ضرر نہیں ہو گا اوراگر وہ سچا ہوا تو مجھے علم ہو ہی جائے گا، چنانچہ میں واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آیا تو لوگوں نے کہا: عدی بن حاتم، عدی بن حاتم، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے تین بار فرمایا: عدی بن حاتم! دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائو، سلامت رہو گے۔ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں ایک دین پر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے دین کے متعلق تم سے بہتر جانتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے دین کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ کیا تم رکوسیہ گروہ میں سے نہیں ہو؟ (یہ عیسائیوں اور صابئین کا ایک درمیانی گروہ ہے) اور تم اپنی قوم سے مال کا چوتھا حصہ لے کر کھاتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حالانکہ یہ چیز تمہارے دین میں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں۔ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ دونوں باتیں بیان فرمائیں تو میں نے انہیں تسلیم کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے سے کون سی چیز تمہارے لیے مانع ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ کم زور معاشرت والے افراد نے دین اسلام کی اتباع کی ہے اور ایسے لوگوں نے دین اسلام قبول کیا ہے، جنہیں دنیوی لحاظ سے قوت یا شان و شوکت حاصل نہیں اور عربوں نے ان مسلمانوں کو دھتکار دیا ہے، کیا تم حیرہ (کوفہ کے قریب ایک) شہر سے واقف ہو؟ میںنے عرض کیا: میں نے اس شہر کو دیکھا تو نہیں، البتہ اس کے بارے سنا ضرور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ تعالیٰ اس دین کو اس حد تک ضرور غالب کرے گا کہ ایک اکیلی خاتون حیرہ شہر سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیر بے خوف و خطر سفر کرتی ہوئی آکر بیت اللہ کا طواف کرے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ضرور بالضرور مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوں گے۔ میں عدی نے حیران ہو کر پوچھا: کیا کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے اور مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہو جائے گی کہ کوئی آدمی مال لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: (میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق ایسا پر امن دور دیکھا کہ) ایک اکیلی خاتون حیرہ سے کسی کی پناہ اور حفاظت کے بغیربے خوف و خطر سفر کرکے آکر بیت اللہ کا طواف کرتی ہے اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے کسریٰ بن ہر مز کے خزانوں کو فتح کیا تھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی، کیونکہیہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہی ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11842)