۔ (۱۱۸۷۴)۔ عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: بَعَثَ إِلَیَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ
فِی مَرَضِہِ، فَأَتَیْتُہُ فَقَالَ لِی: إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُکَ بِأَحَادِیثَ لَعَلَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَنْفَعُکَ بِہَا بَعْدِی، وَاعْلَمْ أَنَّہُ کَانَ یُسَلَّمُ عَلَیَّ، فَإِنْ عِشْتُ فَاکْتُمْ عَلَیَّ وَإِنْ مِتُّ فَحَدِّثْ إِنْ شِئْتَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَاِنَّہُ کَانَ یُسَلَّمُ عَلَیَّ فَلَمَّا اکْتَوَیْتُ أَمْسَکَ عَنِّیْ فَلَمَّا تَرَکْتُہُ عَادَ اِلَیَّ)، وَاعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ جَمَعَ بَیْنَ حَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ، ثُمَّ لَمْ یَنْزِلْ فِیہَا کِتَابٌ وَلَمْ یَنْہَ عَنْہَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ رَجُلٌ فِیہَا بِرَأْیِہِ مَا شَائَ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۸۰)
مطرف بن عبداللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا تھے، انہوںنے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، جب میں ان کی خدمت میں آیا تو انہوںنے مجھ سے کہا: میں آپ کو احادیث سنایا کرتا تھا، امید ہے کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ ان احادیث سے فائدہ پہنچائے گا، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شدت مرض کے دوران میرے صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کے فرشتے آکر مجھے سلام کہا کرتے تھے، اگر میںزندہ رہوں تو تم میری اس بات کا لوگوں کے سامنے اظہار نہ کرنا اور اگر میرا انتقال ہو جائے تو چاہو تو لوگوں کو بتلا دینا۔ ایک روایت میں ہے: اللہ کے فرشتے مجھے سلام کہا کرتے تھے، مگر جب میں نے اپنے زخم کو داغ لگوایا تو سلام کا یہ سلسلہ مجھ سے رک گیا، پھر جب میں نے اس عمل کو ترک کیا تو یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ تم یہ بھی جان رکھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج اور عمرہ کو ایک ہی احرام میں جمع کیا تھا اور اس کے بعد نہ کتاب اللہ میں اس سے منع کیا گیا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس سے منع فرمایا، بس ایک آدمی اس بارے میںاپنی رائے سے اس سے منع کرتا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11874)