۔ (۱۱۹۰۱)۔ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ أَنَّ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ کَانَ أَمِیرًا عَلَی الْجَیْشِ الَّذِی غَزَا فِیہِ أَبُو أَیُّوبَ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَوْتِ، فَقَالَ لَہُ أَبُو أَیُّوبَ: إِذَا مِتُّ فَاقْرَئُ وْا عَلَی النَّاسِ مِنِّی السَّلَامَ، فَأَخْبِرُوہُمْ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((مَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا جَعَلَہُ اللّٰہُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) وَلْیَنْطَلِقُوْا بِیْ فَلْیَبْعُدُوْا بِی فِی أَرْضِ الرُّومِ مَا اسْتَطَاعُوْا، فَحَدَّثَ النَّاسُ لَمَّا مَاتَ أَبُو أَیُّوبَ فَاسْتَلْأَمَ النَّاسُ وَانْطَلَقُوْا
بِجِنَازَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۳۹۲۰)
عاصم نے مکہ کے ایک باشندے سے روایت کیا ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کا امیر تھا جس میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ شریک تھے، ان کی وفات کے وقت یزید ان کے پاس آیا تو انہوںنے اس سے کہا: میری وفات ہو تو میری طرف سے لوگوں کو سلام کہنا اور انہیں بتلا دینا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو کوئی اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا، اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد یہ لوگ میری میت کو اٹھا کر روم کی حدود میں جہاں تک ممکن ہو دورلے جائیں، پس جب سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تویزید نے لوگوں کو ان کے انتقال کی خبر دی،لوگوں نے اپنے ہتھیار زیب تن کر لیے اور ان کی میت کو لے کر چل پڑے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11901)