۔
(۱۱۹۰۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ صَامِتٍ قَالَ:
قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَکَانُوا یُحِلُّونَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ أَنَا وَأَخِی أُنَیْسٌ وَأُمُّنَا، فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا عَلٰی خَالٍ لَنَا ذِی مَالٍ وَذِی ہَیْئَۃٍ، فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا فَأَحْسَنَ إِلَیْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُہُ، فَقَالُوْا: إِنَّکَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَہْلِکَ خَلَفَکَ إِلَیْہِمْ أُنَیْسٌ، فَجَائَ نَا خَالُنَا فَنَثَا عَلَیْہِ مَا قِیلَ لَہُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضٰی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَہُ وَلَا جِمَاعَ لَنَا فِیمَا بَعْدُ، قَالَ: فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَیْہَا وَتَغَطّٰی خَالُنَا ثَوْبَہُ وَجَعَلَ یَبْکِی، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا بِحَضْرَۃِ مَکَّۃَ، قَالَ: فَنَافَرَ أُنَیْسٌ رَجُلًا عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِہَا فَأَتَیَا الْکَاہِنَ فَخَیَّرَ أُنَیْسًا، فَأَتَانَا بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِہَا وَقَدْ صَلَّیْتُ یَا ابْنَ أَخِی قَبْلَ أَنْ أَلْقٰی رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثَلَاثَ سِنِینَ، قَالَ: فَقُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَیْنَ تَوَجَّہُ؟ قَالَ: حَیْثُ وَجَّہَنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَأُصَلِّی عِشَائً حَتّٰی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ أُلْقِیتُ کَأَنِّی خِفَائٌ (قَالَ أَبِی: قَالَ أَبُو النَّضْرِ: قَالَ سُلَیْمَانُ: کَأَنِّی جِفَائٌ) حَتّٰی تَعْلُوَنِی الشَّمْسُ، قَالَ: فَقَالَ أُنَیْسٌ: إِنَّ لِی حَاجَۃً بِمَکَّۃَ فَاکْفِنِی حَتّٰی آتِیَکَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَرَاثَ عَلَیَّ ثُمَّ أَتَانِی، فَقُلْتُ: مَا حَبَسَکَ؟ قَالَ: لَقِیتُ رَجُلًا یَزْعُمُ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَرْسَلَہُ عَلٰی دِینِکَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا یَقُولُ النَّاسُ لَہُ؟ قَالَ: یَقُولُونَ، إِنَّہُ شَاعِرٌ وَسَاحِرٌ وَکَاہِنٌ، قَالَ: وَکَانَ أُنَیْسٌ شَاعِرًا، قَالَ: فَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکُہَّانِ فَمَا یَقُولُ بِقَوْلِہِمْ، وَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَہُ عَلٰی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَوَاللّٰہِ مَا یَلْتَامُ لِسَانُ أَحَدٍ أَنَّہُ شِعْرٌ، وَاللّٰہِ إِنَّہُ لَصَادِقٌ وَإِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: ہَلْ أَنْتَ کَافِیَّ حَتّٰی أَنْطَلِقَ فَأَنْظُرَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَکُنْ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ عَلٰی حَذَرٍ فَإِنَّہُمْ قَدْ شَنِفُوا لَہُ وَتَجَہَّمُوا لَہُ، وَقَالَ عَفَّانُ: شِیفُوا لَہُ، وَقَالَ بَہْزٌ: سَبَقُوْا لَہُ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ: شَفَوْا لَہُ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتّٰی قَدِمْتُ مَکَّۃَ فَتَضَیَّفْتُ رَجُلًا مِنْہُمْ فَقُلْتُ: أَیْنَ ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی تَدْعُونَہُ الصَّابِئَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ إِلَیَّ، قَالَ: الصَّابِئُ، قَالَ: فَمَالَ أَہْلُ الْوَادِی عَلَیَّ بِکُلِّ مَدَرَۃٍ وَعَظْمٍ حَتّٰی خَرَرْتُ مَغْشِیًّا عَلَیَّ، فَارْتَفَعْتُ حِینَ ارْتَفَعْتُ کَأَنِّی نُصُبٌ أَحْمَرُ، فَأَتَیْتُ زَمْزَمَ فَشَرِبْتُ مِنْ مَائِہَا وَغَسَلْتُ عَنِّی الدَّمَ، فَدَخَلْتُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا، فَلَبِثْتُ بِہِ ابْنَ أَخِی ثَلَاثِینَ مِنْ بَیْنِ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، وَمَا لِی طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتّٰی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِی، وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِی سَخْفَۃَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَیْنَا أَہْلُ مَکَّۃَ فِی لَیْلَۃٍ قَمْرَائَ أَضْحِیَانٍ، وَقَالَ عَفَّانُ: أَصْخِیَانٍ، وَقَالَ بَہْزٌ: أَصْخِیَانٍ، وَکَذٰلِکَ قَالَ أَبُو النَّضْرِ، فَضَرَبَ اللّٰہُ عَلٰی أَصْمِخَۃِ أَہْلِ مَکَّۃَ فَمَا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ غَیْرُ امْرَأَتَیْنِ فَأَتَتَا عَلَیَّ وَہُمَا تَدْعُوَانِ إِسَافَ وَنَائِلَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْکِحُوْا أَحَدَہُمَا الْآخَرَ فَمَا ثَنَاہُمَا ذٰلِکَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَیَّ، فَقُلْتُ: وَہَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَۃِ غَیْرَ أَنِّی لَمْ اَکْنِ، قَالَ: فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوْ کَانَ ہَاہُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَہُمَا ہَابِطَانِ مِنَ الْجَبَلِ، فَقَالَ: مَا لَکُمَا؟ فَقَالَتَا: الصَّابِئُ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ وَأَسْتَارِہَا، قَالَا: مَا قَالَ لَکُمَا، قَالَتَا: قَالَ لَنَا کَلِمَۃً تَمْلَأُ الْفَمَ، قَالَ: فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہُوَ وَصَاحِبُہُ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ صَلَّی، قَالَ: فَأَتَیْتُہُ فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَیَّاہُ بِتَحِیَّۃِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: ((عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ مِمَّنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَہْوَی بِیَدِہِ فَوَضَعَہَا عَلٰی جَبْہَتِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: کَرِہَ أَنِّی انْتَمَیْتُ إِلٰی غِفَارٍ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ آخُذَ بِیَدِہِ فَقَذَعَنِی صَاحِبُہُ وَکَانَ أَعْلَمَ بِہِ مِنِّی، قَالَ: ((مَتٰی کُنْتَ ہَاہُنَا؟)) قَالَ: کُنْتُ ہَاہُنَا مُنْذُ ثَلَاثِینَ مِنْ بَیْنِ لَیْلَۃٍ وَیَوْمٍ، قَالَ: ((فَمَنْ کَانَ یُطْعِمُکَ؟)) قُلْتُ: مَا کَانَ لِی طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ، قَالَ: فَسَمِنْتُ حَتّٰی تَکَسَّرَ عُکَنُ بَطْنِی، وَمَا وَجَدْتُ عَلٰی کَبِدِی سُخْفَۃَ جُوعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((إِنَّہَا مُبَارَکَۃٌ، وَإِنَّہَا طَعَامُ طُعْمٍ۔)) قَالَ أَبُو بَکْرٍ: ائْذَنْ لِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ فِی طَعَامِہِ اللَّیْلَۃَ؟ قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُمَا حَتّٰی فَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا فَجَعَلَ یَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِیبِ الطَّائِفِ، قَالَ: فَکَانَ ذٰلِکَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَکَلْتُہُ بِہَا فَلَبِثْتُ مَا لَبِثْتُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((إِنِّی قَدْ وُجِّہَتْ إِلَیَّ أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ، وَلَا أَحْسَبُہَا إِلَّا یَثْرِبَ فَہَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّی قَوْمَکَ لَعَلَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَنْفَعَہُمْ بِکَ وَیَأْجُرَکَ فِیہِمْ؟)) قَالَ: فَانْطَلَقْتُ حَتّٰی أَتَیْتُ أُنَیْسًا، قَالَ: فَقَالَ لِی: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّی صَنَعْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: قَالَ: فَمَا لِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکَ إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ ثُمَّ أَتَیْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: فَمَا بِی رَغْبَۃٌ عَنْ دِینِکُمَا فَإِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَتَحَمَّلْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ بَعْضُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَدِینَۃَ، وَقَالَ: یَعْنِی یَزِیدَ بِبَغْدَادَ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: إِذَا قَدِمَ، فَقَالَ بَہْزٌ: إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ، وَکَذَا قَالَ أَبُو النَّضْرِ، وَکَانَ یَؤُمُّہُمْ خُفَافُ بْنُ إِیمَائِ بْنِ رَحَضَۃَ الْغِفَارِیُّ، وَکَانَ سَیِّدَہُمْ یَوْمَئِذٍ، وَقَالَ: بَقِیَّتُہُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الْمَدِینَۃَ فَأَسْلَمَ بَقِیَّتُہُمْ، قَالَ: وَجَائَ تْ أَسْلَمُ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِخْوَانُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِی أَسْلَمُوْا عَلَیْہِ فَأَسْلَمُوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((غِفَارٌ غَفَرَ اللّٰہُ لَہَا وَأَسْلَمُ سَالَمَہَا اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۵۸)
سیدنا عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنی قوم غفار، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے، سے وفد کی صورت میں نکلے۔ میں (ابو ذر)، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے، ہم اپنے ماموں کے پاس آکر ٹھہرے جو مالدار اور اچھی پوزیشن والا تھا۔ انھوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی ۔ اس لیے انھوں نے کہا: جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا: جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا۔ انیس نے ایک آدمی سے ہماری اونٹنیوں اور اتنی ہی اور کے عوض فخر کا اظہار کیا۔ وہ دونوں فیصلہ کرانے کے لیے ایک نجومی کے پاس گئے، اس نے انیس کو منتخب کیا، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے میرے بھیتجے! میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: کس کے لیے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کے لیے۔ میں نے کہا: تو کس طرف رخ کرتا تھا۔ اس نے کہا: جس طرف میرا ربّ میرا رخ موڑ دیتا تھا۔ میں رات کے آخری حصے میں نمازِ عشا ادا کرتا تھا۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا،یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا۔ انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کوئی کام ہے، تو مجھے کفایت کر۔ انیس چلا گیا، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: تو نے وہاں کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اسے شاعر، نجومی اور جادو گر کہتے ہیں۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس نے کہا: لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان آور شعراء کے کلام پر پیش کیا ہے، لیکن کسی کی زبان یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام بھی) شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ صادق ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: اب تو مجھے کفایت کر، تاکہ میں بھی جا کر دیکھ سکوں (کہ اصل ماجرا کیا ہے؟) اس نے کہا: تم مکہ والوں سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ اسے ناپسند کر رہے ہیں میں مکہ پہنچ گیا اور ایک آدمی کے پاس مہمان ٹھہرا اور اس سے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے جس کو تم لوگ بے دین کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بے دین۔ (یہ سنتے ہی) اہل وادی مٹی کے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر چڑھ دوڑے، میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب (مجھے افاقہ ہوا اور)میں اٹھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں ایک سرخ پتھر ہوں۔ میں زمزم پانی پر آیا، خون دھویا، اس کا پانی پیا اور میں کعبہ کے پردوں کے اندر داخل ہو گیا اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس دنوں تک ٹھہرا رہا۔ میرے پاس مائے زمزم کے علاوہ کوئی کھانا نہیں تھا، وہی پی کر میں موٹا ہوتا رہا (یعنی خوراک کی کمی پوری کرتا رہا) اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں ختم کرتا رہا۔ مجھے بھوک کی وجہ سے ہونے والی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ (دن گزرتے رہے اور ) ایک دن مکہ میں چاندنی رات اور صاف فضا تھی، اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ اس نے کہا: وہ طواف کے دوران میرے پاس سے گزریں، میں نے کہا: ایک کی دوسرے سے شادی کر دو۔ لیکن وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں۔ (چکر کے دوران پھر) میرے پاس سے گزریں۔ میں نے کہا: شرمگاہ تو لکڑی کی طرح ہے اور میں نے بات کنایۃً نہیں کی۔ وہ دونوں چیختی چلاتی چلتی گئیں اور یہ کہتی گئیں کہ کاش ہماری جماعت کا بھی کوئی آدمییہاں ہوتا! اس نے کہا: اسی اثنا میں ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر (بلندی سے) اترتے ہوئے آ رہے تھے۔ آپ نے کہا: تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان بے دین ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے تمھیں کیا کہا: انھوں کہا: ایسی بات کہی کہ جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور حجرِ اسود کا استلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف کیا اور پھر نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابوذر نے کہا: میں پہلا آدمی تھا جس نے انھیں اسلام کا سلام پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وعلیک ورحمۃ اللہ پھر فرمایا: آپ کون ہیں؟ میں نے کہا: میں غفار قبیلے سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلی اپنی پیشانی پر رکھی۔ میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید آپ نے غفار کی طرف میری نسبت کو ناپسند کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن آپ کے ساتھی نے مجھے روک دیااور وہ آپ کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: آپ اس جگہ کب سے ہیں؟ میں نے کہا: میں تیس دنوں سے یہاں ہوں، پھر آپ نے فرمایا: کون تجھے کھانا کھلاتا تھا؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ میرے پاس کوئی کھانا نہیں ہے، یہی پانی پی کر میں موٹا ہوتا رہا اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں پر کرتا رہا اور مجھے بھوک کی وجہ سے کوئی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ پانی مبارک ہے اور یہ کھانے کا کھانا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، آج رات میں اس کو کھانا کھلاؤں گا۔ آپ نے اجازت دے دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقی لانا شروع کیا۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا، پھر کچھ مدت میں وہاں ٹھہرا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی کھجوروں والی زمین میرے لیے مطیع کر دی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یثرب (مدینہ) ہے، کیا تو اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دے گا، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ان کو نفع دے اور ان کی وجہ سے تجھے اجرو ثواب بھی عطا کرے۔ میں انیس کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: اسلام قبول کر لیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: میں بھی تیرے دین سے بے رغبتی نہیں کرتا، میں بھی مطیع ہو گیا ہوں اورمیں نے بھی تصدیق کی ہے ہم دونوں اپنی ماں کے پاس گئے تو کہنے لگی مجھے بھی تمہارے دین سے بے رغبتی نہیں میں بھی مسلمان ومطیع ہوگئی۔ ہم سوار ہوئے اور اپنی قوم غفار کے پاس پہنچ گئے۔ نصف قبیلہ تو مسلمان ہو گیا۔ ایماء بن رحضہ غفاری، جو ان کا سردار تھا، ان کو نماز پڑھاتا تھا۔ اور نصف قبیلے نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ نصف قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ اسلم قبیلہ کے لوگ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جس چیز پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے، ہم بھی اسی چیز پر مسلمان ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غفار قبیلہ، اللہ اس کو بخش دے اور اسلم قبیلہ، اللہ اسے سلامتی کے ساتھ رکھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11907)