Blog
Books



۔ (۱۱۹۱۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ یَعْنِی ابْنَ الْأَشْتَرِ، عَنْ أَبِیہِ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، حَضَرَہُ الْمَوْتُ وَہُوَ بِالرَّبَذَۃِ فَبَکَتِ امْرَأَتُہُ، فَقَالَ: مَا یُبْکِیکِ؟ قَالَتْ: أَبْکِی لَا یَدَ لِی بِنَفْسِکَ وَلَیْسَ عِنْدِی ثَوْبٌ یَسَعُکَ کَفَنًا، فَقَالَ: لَا تَبْکِی فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَہُ فِی نَفَرٍ یَقُولُ: ((لَیَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْکُمْ بِفَلَاۃٍ مِنَ الْأَرْضِ، یَشْہَدُہُ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ۔)) قَالَ: فَکُلُّ مَنْ کَانَ مَعِی فِی ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِی جَمَاعَۃٍ وَفُرْقَۃٍ فَلَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ غَیْرِی، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلَاۃِ أَمُوتُ فَرَاقِبِی الطَّرِیقَ فَإِنَّکِ سَوْفَ تَرَیْنَ مَا أَقُولُ، فَإِنِّی وَاللّٰہِ! مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ، قَالَتْ: وَأَنّٰی ذَلِکَ وَقَدِ انْقَطَعَ الْحَاجُّ؟، قَالَ رَاقِبِی الطَّرِیقَ، قَالَ: فَبَیْنَا ہِیَ کَذٰلِکَ إِذَا ہِیَ بِالْقَوْمِ تَخْدِیْہِمْ رَوَاحِلُہُمْ کَأَنَّہُمُ الرَّخَمُ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتّٰی وَقَفُوْا عَلَیْہَا، فَقَالُوْا: مَا لَکِ؟ قَالَتْ: امْرُؤٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ تُکَفِّنُونَہُ وَتُؤْجَرُوْنَ فِیہِ، قَالُوْا: وَمَنْ ہُوَ؟ قَالَتْ: أَبُو ذَرٍّ، فَفَدَوْہُ بِآبَائِہِمْ وَأُمَّہَاتِہِمْ وَوَضَعُوْا سِیَاطَہُمْ فِیْ نُحُورِہَا یَبْتَدِرُونَہُ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا أَنْتُمْ النَّفَرُ الَّذِینَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیکُمْ مَا قَالَ، أَبْشِرُوْا سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَا مِنْ امْرَأَیْنِ مُسْلِمَیْنِ ہَلَکَ بَیْنَہُمَا وَلَدَانِ أَوْ ثَلَاثَۃٌ فَاحْتَسَبَا وَصَبَرَا فَیَرَیَانِ النَّارَ أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَدْ أَصْبَحْتُ الْیَوْمَ حَیْثُ تَرَوْنَ، وَلَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِیَابِی یَسَعُنِی لَمْ أُکَفَّنْ إِلَّا فِیہِ، فَأَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَنْ لَا یُکَفِّنَنِی رَجُلٌ مِنْکُمْ کَانَ أَمِیرًا أَوْ عَرِیفًا أَوْ بَرِیدًا، فَکُلُّ الْقَوْمِ کَانَ قَدْ نَالَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: أَنَا صَاحِبُکَ ثَوْبَانِ فِیْ عَیْبَتِیْ مِنْ غَزْلِ أُمِّیْ وَأَجِدُ ثَوْبَیَّ ھٰذَیْنِ الَّذَیْنِ عَلَیَّ، قَالَ: اَنْتَ صَاحِبِیْ فَکَفِّنِّی۔ (مسند احمد: ۲۱۷۹۹)
ابراہیم بن الاشتر سے روایت کیا ہے کہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ربذہ میں تھے، ان کی وفات کا وقت آیا تو ان کی اہلیہ رونے لگیں۔ انہوںنے دریافت کیا کہ آپ کیوں روتی ہیں؟ وہ بولیں: میں اس لیے رو رہی ہوں کہ میںاکیلی آپ کی تدفین کیسے کروں گی؟ اور میرے پاس تو آپ کے کفن کے لیے کافی کپڑا تک بھی نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم مت روؤ۔ میں نے ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا، اس وقت میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک آدمی کو جنگل میں موت آئے گی، اس کے پاس اہل ایمان کی ایک جماعت پہنچ جائے گی، اس وقت میرے ساتھ جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، وہ سب اس حال میں فوت ہوئے کہ ان کے اردگرد لوگوں کی جماعتیں موجود تھیںیا ان کی وفات کسی آبادی میں ہوئی، ان لوگوں میں سے صرف میں ہی باقی بچا ہوں اور اب میں جنگل (ویرانے) میں مر رہا ہوں، تم راستے پر نظر رکھو، میں تم سے جو کچھ کہہ رہا ہوں، تم عنقریبیہ سب کچھ دیکھ لو گی، اللہ کی قسم نہ تو میں غلط بیانی کر رہا ہوں اور نہ بیان کرنے والے یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غلط بیانی کی ہے۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ نے حیران ہو کر کہا: ایسا کیونکر ہوگا۔ حجاج کرام حج سے فراغت کے بعد اپنے اپنے علاقوں کو واپس روانہ ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہرحال تم راستے پر نظر رکھنا، وہ اسی کیفیت میں تھی کہ اس نے دور سے لوگوں کو آتے دیکھا، جن کی سواریاں ان کو تیزی سے لا رہی تھیں، دور سے یوں لگتا تھا گویا کہ وہ پرندوں کا جھنڈ ہے، لوگ آتے آتے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ کے پاس پہنچ گئے۔ انہوںنے دریافت کیا: کیا معاملہ ہے؟ وہ بولیں کہ ایک مسلمان آدمی ہے۔ آپ لوگ رک کر اس کی تکفین کریں، اللہ تمہیں اجر دے گا۔ انہوںنے دریافت کیا: وہ کون ہے؟ اس خاتون نے بتلایا کہ وہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ تو ان سب لوگوں نے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اور انہوںنے اپنی لاٹھیاں سواریوں کی گردنوں میں لٹکا دیں اور بڑی پھرتی سے ان کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگوں کو بشارت ہو، تم ہی وہ لوگ ہو جن کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا، تمہیں مبارک ہو، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا تھا کہ دو مسلمان (خاوند بیوی) جن کے دو یا تین (نابالغ) بچے وفات پا جائیں اور وہ دونوں ان بچوں کی وفات پر صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کے امید وار ہوں تو وہ کبھی بھی جہنم کو نہیں دیکھیں گے اور آج تم میرا حال دیکھ رہے ہو، اگر میرے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا کافی ہو تو مجھے اسی میں کفن دیا جائے، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم میں سے جو آدمی کسی قوم یاعلاقے کا امیر ہو یا اپنی قوم کا سردار ہو یا قوم کاقاصد ہو وہ مجھے کفن نہ پہنائے، وہ سب لوگ ان ذمہ داریوں کو ادا کر چکے تھے، البتہ ان میں صرف ایک انصاری لڑکا تھا۔ اس نے کہا: میں اس بارے میں آپ کی خدمت بجا لائوں گا، میرے سامان میں دو کپڑے زائد ہیں،یہ دو کپڑے میری والدہ نے اپنے ہاتھوں سے کاتے ہیں اور میرے پاس اپنے استعمال کے لیےیہ دو کپڑے جو میرے زیب تن ہیں وہ کافی ہیں۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم ہی مجھے کفن دینا۔ سیدہ ام ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھییہ حدیث مختصراً مروی ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(11916)
Background
Arabic

Urdu

English