۔ (۱۱۹۷۵)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ قَالَتْ:
تَزَوَّجَنِی الزُّبَیْرُ وَمَا لَہُ فِی الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوکٍ وَلَا شَیْئٍ غَیْرَ فَرَسِہِ، قَالَتْ: فَکُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَہُ وَأَکْفِیہِ مَئُونَتَہُ وَأَسُوسُہُ وَأَدُقُّ النَّوٰی لِنَاضِحِہِ أَعْلِبُ وَأَسْتَقِی الْمَائَ وَأَخْرُزُ غَرْبَہُ، وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَکُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، فَکَانَ یَخْبِزُ لِی جَارَاتٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَکُنَّ نِسْوَۃَ صِدْقٍ، وَکُنْتُ أَنْقُلُ النَّوٰی مِنْ أَرْضِ الزُّبَیْرِ الَّتِی أَقْطَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی رَأْسِی، وَہِیَ مِنِّی عَلٰی ثُلُثَیْ فَرْسَخٍ، قَالَتْ: فَجِئْتُ یَوْمًا وَالنَّوٰی عَلٰی رَأْسِی، فَلَقِیتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَدَعَانِی ثُمَّ قَالَ: ((إِخْ إِخْ۔)) لِیَحْمِلَنِی خَلْفَہُ قَالَتْ: فَاسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَسِیرَ مَعَ الرِّجَالِ وَذَکَرْتُ الزُّبَیْرَ وَغَیْرَتَہُ، قَالَتْ: وَکَانَ أَغْیَرَ النَّاسِ فَعَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّی قَدِ اسْتَحْیَیْتُ فَمَضٰی، وَجِئْتُ الزُّبَیْرَ فَقُلْتُ: لَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَعَلٰی رَأْسِی النَّوٰی وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَأَنَاخَ لِأَرْکَبَ مَعَہُ فَاسْتَحْیَیْتُ وَعَرَفْتُ غَیْرَتَکَ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَحَمْلُکِ النَّوٰی أَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ رُکُوبِکِ مَعَہُ، قَالَتْ: حَتّٰی أَرْسَلَ إِلَیَّ أَبُو بَکْرٍ بَعْدَ ذٰلِکَ بِخَادِمٍ فَکَفَتْنِیْ سَیَاسَۃَ الْفَرَسِ فَکَاَنَّمَا اَعْتَقَتْنِیْ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۶)
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کر لیا، جبکہ ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوا مال، غلام اور کوئی چیز، غرضیکہ کچھ بھی نہیں تھا، میں ہی ان کے گھوڑے کو گھاس ڈالتی، اس کی ضروریات پوری کرتی اور میں گھوڑے کو گھما پھرا لاتی اور میں ان کے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں کوٹتی پیستی، اسے گھاس ڈالتی اور اس پر پانی لاد لاتی، پانی کا ڈول پھٹ جاتا تو اس کی مرمت کرتی، آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی، اس لیے میری ہمسایہ انصاری خواتین مجھے روٹی پکا دیتی تھیں،یہ بڑی اچھی عورتیں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو زمین سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو عنایت کیا تھا وہ تقریباً دو میل دور تھا، میں وہاں سے گٹھلیاں سر پر لاد کر لاتی۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ آرہے تھے کہ راستے میں مجھ سے ملاقات ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آواز دے کر اپنے پیچھے مجھے سوار کرنے کے لیے اپنی سواری کو روکنے کی آواز دی، لیکن مجھے مردوں کے ساتھ سفر کرنے میں جھجک محسوس ہوئی۔ ساتھ ہی مجھے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کی غیرت بھییاد آئی، وہ سب سے زیادہ غیرت مند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جان گئے کہ میں آپ کے ساتھ سوار ہونے سے جھجک رہی ہوں، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل دیئے۔ میں نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کو بتلایا کہ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابۂ کرام مل گئے، آپ نے مجھے اپنے ساتھ سوار کرنے کے لیے سواری کو بٹھانے ارادہ کیا، لیکن میں تو شرما گئی اور میں آپ کی غیرت کو بھی جانتی ہوں۔ یہ سن کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میرے نزدیک تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے تمہارا گٹھلیاں اٹھا کر لانامیرے لیے زیادہ ناگوار ہے۔ سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرییہی صورت حال رہی،یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک خدامہ میری طرف بھیج دی، پھر گھوڑے کی خدمت کے سلسلہ میں اس خادمہ نے میری ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس نے آکر گویا مجھے آزاد کر دیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(11975)