۔ (۱۲۳۸۹)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ، عَنْ
عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَبُعٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: لَتُخْضَبَنَّ ہٰذِہِ مِنْ ہٰذَا فَمَا یَنْتَظِرُ بِی الْأَشْقٰی، قَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَأَخْبِرْنَا بِہِ نُبِیرُ عِتْرَتَہُ، قَالَ: إِذًا تَاللّٰہِ تَقْتُلُونَ بِی غَیْرَ قَاتِلِی، قَالُوْا: فَاسْتَخْلِفْ عَلَیْنَا، قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ أَتْرُکُکُمْ إِلٰی مَا تَرَکَکُمْ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالُوْا: فَمَا تَقُولُ لِرَبِّکَ إِذَا أَتَیْتَہُ؟ وَقَالَ وَکِیعٌ مَرَّۃً: إِذَا لَقِیتَہُ، قَالَ: أَقُولُ اللَّہُمَّ تَرَکْتَنِی فِیہِمْ مَا بَدَا لَکَ، ثُمَّ قَبَضْتَنِی إِلَیْکَ وَأَنْتَ فِیہِمْ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَہُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَہُمْ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۸)
عبداللہ بن سبع سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ! حدیث ضعیف ہے اور آگ کے ساتھ کسی ذی روح کو عذاب دینا یا جلانا منع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ النَّارَ لَا یُعَذِّبُ بِھَا اَحَدٌ اِلاَّ اللّٰہُ)) (صحیح بخاری: ۲۹۵۴) آگ کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی عذاب نہیں دیتا (یعنی کوئی عذاب نہ دے)۔ (عبداللہ رفیق) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میری یہ داڑھی میرے سر کے خون سے رنگین ہوگی اور انتہائی بدبخت آدمی میرے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا منتظر ہے۔ لوگوںنے کہا: اے امیر المومنین! آپ ہمیںاس کے متعلق بتلا دیں تو ہم اس کی اولاد تک کا نام و نشان نہ چھوڑیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ایسا کروں تو تم میرے اصل قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کر دو گے۔ لوگوں نے کہا: اچھاآپ کسی کو ہمارے اوپر خلیفہ نامزد کردیں، انھوں نے اس سے بھی انکار کر دیا اور کہا: میں تمہیں اسی طرح چھوڑ کر جاؤں گا، جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں چھوڑگئے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا، لوگوں نے کہا: آپ اپنے رب کے ہاں جا کر کیا کہیں گے؟ انھوں نے کہا: میں کہوں گا: یاا للہ! جب تک تجھے منظور تھا تو نے مجھے ان کے درمیان باقی رکھا، پھر تو نے مجھے اپنی طرف بلالیا اور ان لوگوں میں میرے بعد تو ہی تھا، تو چاہتا ہے تو ان کی اصلاح کردے اور اگر چاہتا ہے تو ان میں فساد برپا کر دے۔
Musnad Ahmad, Hadith(12389)