۔ (۱۲۴۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ نُجَیٍّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَارَ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَ صَاحِبَ مِطْہَرَتِہِ، فَلَمَّا حَاذٰی نِینَوٰی، وَہُوَ مُنْطَلِقٌ إِلٰی صِفِّینَ، فَنَادٰی عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قُلْتُ: وَمَاذَا؟ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَعَیْنَاہُ تَفِیضَانِ، قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَغْضَبَکَ أَحَدٌ؟ مَا شَأْنُ عَیْنَیْکَ تَفِیضَانِ؟ قَالَ: ((بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِی
جِبْرِیلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِی أَنَّ الْحُسَیْنَیُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قَالَ: فَقَالَ: ہَلْ لَکَ إِلٰی أَنْ أُشِمَّکَ مِنْ تُرْبَتِہِ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَمَدَّ یَدَہُ فَقَبَضَ قَبْضَۃً مِنْ تُرَابٍ، فَأَعْطَانِیہَا فَلَمْ أَمْلِکْ عَیْنَیَّ أَنْ فَاضَتَا۔)) (مسند احمد: ۶۴۸)
عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی نے آواز دی: ابو عبداللہ! ٹھہر جاؤ ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا، اس حال میں کہ آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہار ہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آپ کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میں آپ کو اس کی مٹی کی خوشبو سونگھاؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(12419)