۔ (۱۲۴۳۸)۔ عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ
أَتٰی أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ، فَقَالَ: یَا أَبَا سَعِیدٍ! أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ بَایَعْتَ أَمِیرَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلٰی أَمِیرٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَایَعْتُ ابْنَ الزُّبَیْرِ فَجَائَ اَھْلُ الشَّامِ فَسَاقُوْنِیْ إِلَی جَیْشِ بْنِ دَلَحَۃَ فَبَایَعْتُہُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِیَّاہَا کُنْتُ أَخَافُ إِیَّاہَا کُنْتُ أَخَافُ وَمَدَّ بِہَا حَمَّادٌ صَوْتَہُ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا یَنَامَ نَوْمًا، وَلَا یُصْبِحَ صَبَاحًا، وَلَا یُمْسِیَ مَسَائً إِلَّا وَعَلَیْہِ أَمِیرٌ۔))؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلٰکِنِّی أَکْرَہُ أَنْ أُبَایِعَ أَمِیرَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلٰی أَمِیرٍ وَاحِدٍ۔ (مسند احمد: ۱۱۲۶۷)
بشر بن حرب سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور ان سے کہا: مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ کہ لوگوں کے ایک امیر کی امارت پر متفق ہونے سے پہلے ہی آپ نے دو امیروں کی بیعت کر لی ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں، میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر چکا تھا کہ شامی آگئے اوروہ مجھے ابن دلحہ کے لشکر کی طرف لے گئے، میں نے اس کی بیعت بھی کرلی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس بات کا اندیشہ تھا، میں اسی سے ڈرتا تھا، ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے حماد بن سلمہ نے اپنی آواز کو لمبا کر کے کھینچا،ابو سعید نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! کیا آپ نے نہیں سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ کسی امیر کی امارت کے نہ ہوتے ہوئے نہ صبح کرے اور نہ شام کرے تو اسے ضرورکسی کی امارت میں چلے جانا چاہیے۔ ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کے کسی ایک امیر کی امارت پر متفق ہونے سے پہلے میں دوامیروں کی بیعت کروں۔
Musnad Ahmad, Hadith(12438)