۔ (۱۲۵۳۸)۔ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: قَالَ لِیْ اَبِیْ: یَا بُنَیَّ اِنْ وَلِیْتَ مِنْ اَمْرِ النَّاسِ شَیْئًا فَاَکْرِمْ قُرَیْشًا، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ اَھَانَ
قُرَیْشًا اَھَانَہُ اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۴۶۰)
عمرو بن عثمان بن عفان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے والد نے مجھ سے کہا: پیارے بیٹے! اگر تمہیںلوگوں پر حکم رانی کا موقع ملے تو قریش کا اکرام کرنا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے قریش کی توہین کی، اللہ اسے ذلیل و رسواکرے گا۔ فوائد:… دورِ جاہلیت میں قریش کو جو شرف حاصل رہا، ان کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام نے اس کو برقرار رکھا اور اسے عربوں کے بقیہ قبائل پر امامت و امارت میں مقدم قرار دیا۔
عامر بن شہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((اُنْظُرُوْا قُرَیْشًا،فَخُذُوْا مِنْ (وَفِيْ رِوَایَۃٍ: فَاسْمَعُوْا) قَوْلَھُمْ،وَذَرُوْا فِعْلَھُمْ۔)) … قریش کو سامنے رکھو، ان کے اقوال سنو، (اور پیروی کرو) اور ان کے افعال کو نظر انداز کر دو۔ (احمد:۴/۲۶۰، صحیحہ: ۱۵۷۷)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام صحابہ کے بارے میں بھی یہی قانون پیش کیا ہے کہ ان کی حسنات و خیرات کو مدنظر رکھا جائے، ان کے بشری تقاضوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ جو صحابہ کرام کے بارے میں اپنا قبلہ درست رکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے اسی کلیہ میں عافیت ہے کہ وہ صحابہ کرام کے معائب و نقائص کے سلسلے کو ہی بند کر دے۔
Musnad Ahmad, Hadith(12538)