۔ (۱۲۶۳۴)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) عَنْ عَائِشَۃَ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ، وَلَیْسَ فِیْہِ ذِکْرُ عَامِرٍ وَفِیْہِ: اِنَّ بِلَالًا قَالَ: کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ، وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، وَکَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْہُ تَغَنّٰی، فَقَالَ: أَلَا لَیْتَ شَعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِوَادٍ، وَحَوْلِیَ إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، وَہَلْ أَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجَنَّۃٍ، وَہَلْ یَبْدُوَنْ لِی شَامَۃٌ وَطَفِیلُ، اللَّہُمَّ اخْزِ عُتْبَۃَ بْنَ رَبِیعَۃَ وَأُمَیَّۃَ بْنَ خَلَفٍ کَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ مَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۲۶۷۷۰)
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اس طریق میں سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے، اس میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا: ہر آدمی کو اپنے اہل و عیال میں صبح بخیر کہا جاتا ہے جب کہ موت اس کے جوتے کے تسمہ سے بھی قریب ترہوتی ہے، جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا بخار اتر جاتا تو وہ گا کر یہ پڑھتے تھے: کاش مجھے معلوم ہو کہ میں کونسی رات اس وادی میں جا کر گزاروں گا، جہا ں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل گھاس ہوگی اور میں مجنہ وادی کے پانیوں میں پہنچوں گا اور شامہ اور طفیل نامی پہاڑ میری نظر کے سامنے ہوں گے۔ اے اللہ! تو عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو رسوا کر دے، جیسا کہ انھوں نے ہمیں مکہ سے نکال دیا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(12634)