۔ (۱۲۸۰۴)۔ عَنْ عَمْرِوبْنِ وَابِصَۃَ الْاَسَدِیِّ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: اِنِّیْ بِالْکُوْفَۃِ فِی دَارِیْ اِذْ سَمِعْتُ عَلٰی بَابِ الدَّارِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَلِجُ قُلْتُ :عَلَیْکُمُ السَّلَامُ فَلِجْ، فَلَمَّا دَخََلَ فَاِذَا ھُوَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ ، قُلْتُ: یَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ! اَیَّۃَ سَاعَۃِ زِیَارَۃٍ ہٰذِہٖوَذٰلِکَفِی نَحْرِ الظَّہِیْرَۃِ؟ قَالَ: طَالَ عَلَّی النَّہَارُ فَذَکَرْتُ مَنْ اَتَحَدَّثُ اِلَیْہِ، قَالَ: فَجَعَلَ یُحَدِّثُنِیْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاُحَدِّثُہٗ قَالَ: ثُمَّ اَنْشَاَ یُحَدِّثُنِیْ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ:(( تَکُوْنُ فِتْنَۃٌ، النِّائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ وَالْمُضْطَجِعُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ وَالْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ ‘ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ خَیْرٌ مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّّاکِبُ خَیْرٌ مِنَ الْمُجْرِیْ، قَتْلَاھَا کُلُّہَا فِی النَّارِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَتٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ:((ذٰلِکَ اَیَّامَ الْھَرْجِ۔)) قُلْتُ: وَمَتٰی اَیَّامُ الْھَرْجِ؟ قَالَ:((حِیْنَ لَا یَاْمَنُ الرَّجُلُ جَلِیْسَہٗ۔)) قَالَ قُلْتُ : فَمَا تَاْمُرُنِیْ اِنْ اَدْرَکْتُ ذٰلِکَ ؟قَالَ:((اُکْفُفْ
نَفْسَکَ وَیَدَکَ وَادْخُلْ دَارَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَیْتَ اِنْ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَیَّ دَارِیْ؟ قَالَ:((فَادْخُلْ بَیْتَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: اَفَرَاَیْتَ اِنْ دَخَلَ عَلَیَّ بَیْتِیْ؟ قَالَ:((فَادْخُلْ مَسْجِدَکَ وَاصْنَعْ ہٰکَذَا،وَقَبَضَ بِیَمِیْنِہٖ عَلَی الْکَوْعِ وَقُلْ رَبِّیَ اللّٰہُ حَتّٰی تَمُوْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۴۲۸۶)
سیدنا وابصہ اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں کوفہ والے اپنے گھر میں تھا کہ دروازے پر یہ آواز سنائی دی:السلام علیکم، میں اندر آ جاؤں، میں نے کہا: وعلیکم السلام، جی تشریف لے آئیں، وہ آدمی تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے، میں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! یہ ملاقات کا کونسا وقت ہے؟ یہ عین دوپہر کا وقت تھا۔ انہوں نے کہا: دن مجھ پر لمبا ہو رہا تھا، میں سوچنے لگا کہ کس کے ساتھ باتیں کر کے وقت گزارا جائے، (اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ گیا)۔ پھر وہ مجھے احادیث ِ نبویہ بیان کرنے لگے اور میں ان کو، انھوں نے یہ حدیث بھی بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فتنے بپا ہوں گے، ان حالات میں سویا ہو اآدمی لیٹے ہوئے سے،لیٹا ہوا بیٹھنے والے سے، بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑے ہونے والا چلنے والے سے، چلنے والا سوار سے اور اونٹ سوار گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے والے آدمی سے بہتر ہو گا، ان لڑائیوں میں قتل ہونے والے سارے کے سارے جہنمی ہوں گے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! ایسے حالات کب پیدا ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتلِ عام کے دنوں میں۔ میں نے کہا:قتلِ عام کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان اپنے ساتھ بیٹھنے والے آدمی پر اعتماد نہیں کرے گا۔ میں نے کہا: اگر میں ایسے زمانے کو پا لوں تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے نفس اور ہاتھ کو روک لینا اور گھر کے اندر ہی رہنا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی جھگڑالو میرے گھر میں گھس آئے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے گھر کے کسی کمرے میں چلے جانا۔ میں نے کہا: اگر وہ میرے کمرے کے اندر بھی گھس آئے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں داخل ہو جانا اور اس طرح کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی بند مٹھی کا انگوٹھے والا کنارہ پکڑ لیا اور فرمایا: اور کہنا کہ اللہ ہی میرا رب ہے، حتی کہ اسی حالت پر مر جانا۔
Musnad Ahmad, Hadith(12804)