Blog
Books



۔ (۱۲۸۴۰)۔ وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْاَشْجَعِیِّ الْاَنْصَارِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ: ((عَوْفٌ؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ ،فَقَالَ: ((اُدْخُلْ))قَالَ: قُلْتُ: کُلٌّ اَوْ بَعْضِیْ قَالَ: ((بَلْ کُلُّکَ۔)) قَالَ: ((اُعْدُدْ یَاعَوْفُ! سِتًّا بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ، اَوَّلُھُنَّ مَوْتِیْ۔)) قَالَ: فَاسْتَبْکَیْتُ حَتّٰی جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُسَکِّتُنِیْ قَالَ: قُلْتُ: اِحْدٰی((وَالثَّانِیَۃُ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدَسِ۔)) قُلْتُ: اِثْنَیْنِ، ((وَالثَّالِثَۃُ مُوْتَانٌ یَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْیَاْخُذُھُمْ مِثْلَ قُعَاصِ الْغَنَمِ۔)) قَالَ: ((ثَلاَثًا وَالرَّابِعَۃُ فِتْنَۃٌ تَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ وَاَعْظَمُہَا۔)) قَالَ :((اَرْبَعًا وَالْخَامِسَۃُیَفِیْضُ الْمَالُ فِیْکُمْ حَتّٰی اَنَّ الرَّجُلَ لَیُعْطٰی الْمِائَۃَ دِیْنَارٍ فَیَتَسَخَّطُہَا۔)) قَالَ: ((خَمْسًا،وَالسَّادِسَۃُ ھُدْنَۃٌ تَکُوْنُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِیْ الْاَصْفَرِ فَیَسِیْرُوْنَ اِلَیْکُمْ عَلٰی ثَمَانِیْنَ غَایَۃً۔)) قُلْتُ: وَمَا الْغَایَۃُ؟ قَالَ: ((اَلرَّایَۃُ تَحْتَ کُلِّ رَاْیَۃٍ اِثْنَا عَشَرَ اَلْفًا، فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِیْنَیَوْمَئِذٍ فِیْ اَرْضٍ یُقَالُ لَھَا الْغُوْطَۃُ فِیْ مَدِیْنَۃٍیُقَالُ لَھَا دِمَشْقُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۸۵)
سیدنا عوف بن مالک اشجعی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا، آپ نے پوچھا : عوف ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اندر آجاؤ۔ میں نے کہا: سارا آجاؤں یا کچھ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : پورے کے پورے ہی آجاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے چھ بڑی بڑی علامتوں کو شمار کرو، پہلی علامت میری موت ہے۔ یہ سن کر میں رونے لگ گیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے چپ کرانے لگ گئے، میںنے کہا: یہ ایک ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوسری بیت المقدس کی فتح ہے۔ میں نے کہا: یہ دوسری ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیسری علامت یہ ہے کہ میری امت میں اس قدر زیادہ موتیں ہوں، جیسے بکریاں موت کی وباء میںمرنے لگتی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ تیسری ہو گئی، اور چوتھی علامت یہ ہے کہ ایک بڑا فتنہ ہو گا، یہ چوتھی ہو گئی اور پانچواں یہ کہ دولت اس قدر عام ہوجائے گی کہ جب کسی کو ایک سو دینار دئیے جائیں گے تو وہ ان کو قلیل سمجھتے ہوئے غصے کا اظہار کرے گا۔ آپ نے فرمایا : یہ پانچویں ہوئی اور چھٹی علامت یہ ہو گی کہ تمہارے اور بنو الاصفر کے درمیان صلح ہوگی،لیکن وہ (عہد توڑ کر) اسی جھنڈوں کے نیچے چل کر آئیں گے۔ میں نے کہا: غایہ سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس سے مراد جھنڈا ہے، ہر جھندے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے، ان دنوں مسلمانوں کا مرکز دمشق میں غوطہ نامی مقام پر ہوگا۔
Musnad Ahmad, Hadith(12840)
Background
Arabic

Urdu

English