۔ (۱۲۹۴۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ اَنَا الْعَوَّامُ ثَنَا سَعِیْدُ بْنُ جَمْہَانَ عَنِ ابْنِ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَرْضًا یُقَالُ لَھَا اَلْبَصْرَۃُ اِلٰی
جِنْبِہَا نَہْرٌ یُقَالُ لَہٗدَجْلَۃُ، ذُوْ نَخْلٍ کَثِیْرٍ وَیَنْزِلُ بِہٖبَنُوْ قَنْطُوْرَائَ، فَیَتَفَرَّقُ النَّاسُ ثَلَاثَ فِرَقٍ فِرْقَۃٌ تَلْحَقُ بِاَصْلِہَا وَھَلَکُوْا وَفِرْقَۃٌ تَاْخُذُ عَلٰی اَنْفُسِہَا وَکَفَرُوْا وَفِرْقَۃٌیَجْعَلُوْنَ ذَرَارِیَّہِمْ خَلْفَ ظُہُوْرِھِمْ فَیُقَاتِلُوْنَ، قَتْلَاھُمْ شُہَدَائُ، یَفْتَحُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ عَنْ بَقِیَّتِہِمْ۔ وَشَکَّ یَزِیْدُ فِیْہِ مَرَّۃً فَقَالَ اَلْبُصَیْرَۃُ اَوِ الْبَصْرَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۰۶۸۴)
سیدناابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بصرہ کی سر زمین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی ایک جانب دجلہ نامی دریا ہے ، وہاں بہت زیادہ کھجوریں ہیں۔ بنو قنطوراء (یعنی ترک لوگ) وہاں آکر ٹھہریں گے اور مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے: ایک گروہ اپنے اصل کے ساتھ مل جائے گا، (یعنی اپنی کھیتوں اور مویشیوں میں مصروف ہوجائے گا)، یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے دوسرا گروہ الگ تھلک رہے گا، یہ لوگ کافر ہوں گے اور ایک گروہ اپنے بیوی بچوں کو پیچھے چھوڑ آئیں گے اورلڑیںگے، ان کے مقتولین شہید ہوں گے، پھر باقیوں کو اللہ تعالیٰ فتح عطا کرے گا۔ یزید بن ہارون کو ایک دفعہ یہ حدیث بیان کرتے ہوئے یہ شک ہوا کہ بصیرہ ہے یا بصرہ۔
Musnad Ahmad, Hadith(12941)