۔ (۱۲۹۵۵)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَرَّ بِاِبْنِ صَیَّادٍ فِیْ نَفَرٍ مِنْ اَصْحَابِہٖفِیْہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ وَھُوَ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ اُطُمِ بَنِیْ مَغَالَۃَ وَ ھُوَ غُلَامٌ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: قَدْ نَاھَزَ الْحُلْمَ) فَلَمْ یَشْعُرْ حَتّٰی ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظَہَرَہُ بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ: ((اَتَشْہَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔)) فَنَظَرَ اِلَیْہِ ابْنُ صَیَّادٍ فَقَالَ: اَشْہَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ الْاُمِّیِّیْنَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَیَّادٍ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اَتَشْہَدُ اَنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَبِرُسُلِہٖ۔)) قَالَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَایَاْتِیْکَ؟)) قَالَ ابْنُ صَیَّادٍ: یَاْتِیْنِیْ صَادِقٌ وَکَاذِبٌ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((خُلِطَ لَکَ الْاَمْرُ۔)) ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اَنِّی قَدْ خَبَاْتُ لَکَ خَبِیْئًا۔)) وَخَبَأَ لَہُ {یَوْمَ تَاْتِ السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔} فَقَالَ ابْنُ صَیَّادٍ: ھُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اِخْسَاْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَکَ۔)) فَقَالَ عُمَرَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!
اِئْذَنْ لِیْ فِیْہِ فَاَضْرِبَ عُنَقَہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اِنْ یَکُنْ ھُوَ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَیْہِ وَاِلَّا یَکُنْ ھُوَ، فَلَا خَیْرَ لَکَ فِیْ قَتْلِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۶۳۶۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابن صیاد کے پاس سے گزر ہوا، جبک آپ کے ہمراہ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سمیت کچھ صحابہ بھی تھے، ابن صیاد ابھی بچہ تھا اور وہ بنو مغالہ کے قلعہ کے قریب بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، ایک روایت کے مطابق وہ بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا، اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا پتہ نہیں چلا سکا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے قریب گئے اور اپنا ہاتھ اس کی پشت پر رکھا اور پوچھا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کرکہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اُمّی لوگوں کے رسول ہیں۔ پھر ابن صیاد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس کون آتا ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس ایک سچا آتا ہے اور ایک جھوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر معاملہ خلط ملط ہوگیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ایک چیز اپنے ذہن میں سوچ رہا ہوں، تو بتا کہ وہ کیا ہے؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل وہ چیز {یَوْمَ تَاْتِ السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۔} تھی۔ اس نے کہا: وہ الدخ ہے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ذلیل ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اُدھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ وہی دجال ہے تو تم اس کو قتل ہی نہیں کر سکو گے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(12955)