Blog
Books



۔ (۱۳۱۰۱)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: اُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِلَحْمٍ فَرُفِعَ اِلَیْہِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُہُ، فَنَہَسَ مِنْہَا نَہْسَۃً ثُمَّ قَالَ: ((اَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَھَلْ تَدْرُوْنَ لِمَ ذٰلِکَ؟ یَجْمَعُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخَرِیْنَ فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ، یُسْمِعُہُمُ الدَّاعِیْ وَیَنْفُذُھُمُ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَیَبْلُغَ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْکُرَبِ مَالَا یُطِیْقُوْنَ وَلَایَحْتَمِلُوْنَ، فَیَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: اَلَاتَرَوْنَ اِلٰی مَا اَنْتُمْ فِیْہِ، اَلَا تَرَوْنَ اِلٰی مَا قَدْ بَلَغَکُمْ، اَلَاتَنْظُرُوْنَ مَنْ یَّشْفَعُ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ عَزَّوَجَلَّ! فَیَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَبُوْکُمْ آدَمُ، فَیَاتُوْنَ آدَمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَاآدَمُ! اَنْتَ أَبُوالْبَشَرِ، خَلَقَکَ اللّٰہُ بِیَدِہِ، وَنَفَخَ فِیْکَ مِنْ رُوْحِہٖ،وَاَمَرَالْمَلَائِکَۃَ فَسَجَدُوْا لَکَ، فَاشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہِ اَلَا تَرٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا۔ فَیَقُوْلُ آدَمُ علیہ السلام : اِنَّ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ مِثْلَہُ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَاِنَّہ نَہَانِیْ عَنِ الشَّجَرَۃِ فَعَصَیْتُہُ، نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ، اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِی، اِذْھَبُوْا اِلٰی نُوْحٍ، فَیَاْتُوْنَ نُوْحًا، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا نُوْحُ! اَبُوْ الرُّسُلِ اِلَی اَھْلِ الْاَرْضِ وَسَمَّاکَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَبْدًا شَکُوْرًا، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّکَ ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہِ اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا۔ فَیَقُوْلُ نُوْحٌ: اِنَّ رَبِّیْ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ، وَاِنَّہُ کَانَتْ لِیْ دَعْوَۃٌ عَلٰی قَوْمِیْ، نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ، اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ، اِذْھَبُوْا اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ، فَیَاْتُوْنَ اِبْرَاہِیْمَ، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا اِبْرَاہِیْمُ! اَنْتَ نَبِیُّ اللّٰہِ وَخَلِیْلُہُ مِنْ اَھْلِ الْاَرْضِ، اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہَ، اَلَا تَرٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَیَقُوْلُ لَھُمْ اِبْرَاہِیْمُ: اِنَّ رَبِّیْ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ، فَذَکَرَ کَذِبَاتِہِ، نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ، اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ، اِذْھَبُوْا اِلٰی مُوْسٰی علیہ السلام ، فَیَاْتُوْنَ مُوْسٰی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُوْسٰی! اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، اِصْطَفَاکَ اللّٰہُ بِرِسَالَاتِہِ وَبِتَکْلِیْمِہِ عَلٰی النَّاسِ، اِشْفَعْ اِلٰی رَبِّکَ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہِ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَیَقُوْلُ لَھُمْ مُوْسٰی: اِنَّ رَبِّیْ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَاِنِّیْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ اُوْمَرْ بِقَتْلِہَا، نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ،اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی عِیْسٰی علیہ السلام فَیَاْتُوْنَ عِیْسٰی، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِیْسٰی! اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہُ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ، قَالَ: ہٰکَذَا ھُوَ، وَکَلَّمْتَ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ، فَاشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہِ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا قَدْ بَلَغَنَا، فَیَقُوْلُ لَھُمْ عِیْسٰی علیہ السلام : اِنَّ رَبِّیْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْیَّغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَلَمْ یَذْکُرْ لَہُ ذَنْبًا، اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ، اِذْھَبُوْ اِلٰی مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَاْتُوْنِّیْ فَیَقُوْلُوْنَ: یَامُحَمَّدُ! اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَخَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ، غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ ذَنْبَکَ مَاتَقَدَّمَ مِنْہُ وَمَا تَاَخَّرَ، اِشْفَعَ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا نَحْنُ فِیْہِ، اَلَا تَرٰی اِلٰی مَا قَدْبَلَغَنَا، فَاَقُوْمُ فَاٰتِیْ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَاَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ، ثُمَّ یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَیَّ وَیُلْھِمُنِیْ مِنْ مَحَامِدِہٖوَحُسْنِالثَّنَائِعَلَیْہِ شَیْئًا لَمْ یَفْتَحْہُ عَلٰی اَحَدٍ قَبْلِیْ، فَیُقَالُ: یَامُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَسَلْ تُعْطَہُ اِشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَقُوْلُ: یَارَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ،یَارَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ،یَارَبِّ! اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ،یَا رَبِّ! فَیَقُوْلُ: یَامُحَمَّدُ! اَدْخِلْ مِنْ اُمَّتِکَ مَنْ لَاحِسَابَ عَلَیْہِ مِنَ الْبَابِ الْاَیْمَنِ مِنْ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ وَھُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِیْمَا سِوَاہُ مِنَ الْاَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! لَمَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِیْعِ الْجَنَّۃِ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَھَجَرٍ اَوْ کَمَا بَیْنَ مَکَّۃَ وَبُصْرٰی۔)) (مسند احمد: ۹۶۲۱)
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا گوشت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیش کیا گیا، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پسند بھی بڑا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دانتوں سے اس سے گوشت نوچا اور پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ ہو گا کیسے؟ اللہ تعالیٰ پہلوں اور پچھلوں سب کو ایک میدان میں جمع کرے گا، وہ سب یوں جمع ہوں گے کہ ایک آواز دینے والا آدمی سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والے کی نظر سب پر پڑ سکے گی، سورج انتہائی قریب آچکا ہوگا، لوگ ناقابل ِ برداشت غم اور تکلیف میں مبتلا ہوں گے، اس کیفیت میں وہ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ تمہارا حال کیا ہوا ہوا ہے؟ تم جس صورت ِ حال سے دو چار ہو وہ تمہیں نظر نہیں آتی؟ ذرا دیکھو کہ کون آدمی ایسا ہوسکتا ہے، جو تمہارے رب کے سامنے تمہارے حق میں شفاعت کر سکے؟ بعض لوگ کہیں گے: تمہارے باپ آدم علیہ السلام ہی اس قابل ہوسکتے ہیں، پھر لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جا کر کہیں گے: اے آدم! آپ ابو البشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے آپ کو پیدا کیا،اس نے تمہارے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں، آپ اپنے رب کے ہاں ہمارے لیے یہ سفارش تو کر دیں، ہم کس قدر تکلیف سے دو چار ہیں؟کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس قدر پریشان ہیں؟ آدم علیہ السلام جواب دیں گے: میرا ربّ آج اتنے شدید غصے میں ہے کہ ایسا غصہ نہ کبھی پہلے آیا تھا اور نہ بعد میں آئے گا۔ اس نے مجھے ایک درخت کے قریب جانے سے منع کیا تھا اور مجھ سے اس کی نافرمانی ہوگئی تھی، میری جان !میری جان! میری جان! میری جان! تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے کہیں گے: اے نوح! آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ِ زمین کی طرف بھیجے گئے رسولوں میں سب سے پہلے آپ تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا شکر گزار بندہ قرار دیا ہے، آپ آج ربّ تعالیٰ کے ہاں ہمارے حق میں سفارش تو کر دیں، کیا آپ ہماری حالت ِ زار نہیں دیکھ رہے؟ اور کیا آپ ہماری پریشانی کو ملا حظہ نہیں کر رہے؟ نوح علیہ السلام کہیں گے: میرا ربّ آج اتنے شدید غصے میں ہے کہ ایسا غصہ نہ کبھی پہلے آیا تھا اور نہ بعد میں آئے گا، میں تو اپنی امت کے عذاب کے سلسلہ میں ایک دعا کرچکا ہوں، ہائے میری جان ، میری جان، میری جان، میری جان، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاو، پس وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جائیں گے اور ان سے کہیں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ تعالیٰ کے نبی اور تمام انسانوں میں سے اس کے خلیل ہیں، آپ ربّ تعالیٰ کے ہاں ہمارے حق میں سفارش تو کر دیں، کیا آپ ہماری پریشان حالی اور حالت ِ زار نہیں دیکھ رہے؟ ابراہیم علیہ السلام ان سے فرمائیں گے: میرا ربّ آج اتنے شدید غصے میں ہے کہ ایسا غصہ نہ کبھی پہلے آیا تھا اور نہ بعد میں آئے گا۔ پھر وہ اپنے جھوٹوں کا ذکر کریں گے (اور سفارش کرنے سے انکار کر دیں گے) ہائے میری جان، میری جان، میری جان، میری جان، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، سو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے گزارش کریںگے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے آپ کو اپنی رسالت اور ہم کلامی کے لیے منتخب فرمایا، آپ ہمارے حق میں اپنے ربّ کے ہاں سفارش تو کر دیں، دیکھیں کہ ہم کس قدر پریشان اور غم و تکلیف میں مبتلا ہیں، موسی علیہ السلام ان سے کہیں گے: میرا ربّ آج اتنے شدید غصے میں ہے کہ ایسا غصہ نہ کبھی پہلے آیا تھا اور نہ بعد میں آئے گا، جبکہ میں ایک ایسے آدمی کو قتل کر چکا ہوں کہ جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، ہائے میری جان ، میری جان، میری جان، میری جان، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جا کر ان سے عرض گزار ہوں گے اور کہیں گے: اے عیسی!آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ اللہ کا وہ کلمہ ہیں، جسے اس نے سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف القاء کیا اور آپ اللہ تعالیٰ کی خاص انداز میں پیدا کردہ روح ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: ہاں یہ بات درست ہے۔ اور آپ نے ماں کی گود میں لوگوں سے کلام کی، آپ ہمارے لیے اپنے ربّ کے ہاں سفارش تو کر دیں، دیکھیں ہم کس قدر پریشان حال ہیں، عیسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے:میرا ربّ آج اتنے شدید غصے میں ہے کہ ایسا غصہ نہ کبھی پہلے آیا تھا اور نہ بعد میں آئے گا، وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، تم کسی اور کے پاس چلے جاؤ، تم محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلے جاؤ، پس اس کے بعدلوگ میرے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کیے ہیں، آپ اپنے ربّ کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں۔ دیکھیں ہم کیسی پریشانی اور کرب و غم میں مبتلا ہیں، میں اٹھ کر عرش کے نیچے جا کر اپنے ربّ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی حمد و ثناء کے ایسے ایسے کلمات میری طرف الہام فرمائے گا کہ اس نے مجھ سے پہلے کسی کو یہ کلمات نہیں سکھلائے ہوں گے، بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا: اے محمد! تم سجدہ سے اپنا سر اٹھاؤ، مانگو تمہیں د یا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! میری امت، میری امت ، اے میرے ربّ ! میری امت، امیری امت، اے میرے ربّ ! میری امت ، میری امت، اے میرے ربّ ! تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا:اے محمد! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جنت کی دائیں طرف والے دروازے سے جنت میں لے جاؤ، جن کا کوئی حساب نہیں ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ باقی دروازوں سے بھی داخل ہونے کا حق رکھتے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دروازے کے دو پٹوں میں اتنی مسافت ہے، جتنی مکہ مکرمہ اور ہجر یا مکہ مکرمہ اور بصریٰ شہر کے درمیان ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(13101)
Background
Arabic

Urdu

English