۔ (۱۳۳۰۰)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ اَوَّلَ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((اَوَّلُ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ الْفُقَرَائُ وَالْمُہَاجِرُوْنَ الَّذِیْنَ تُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا قَضَائً، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ یَّشَائُ مِنْ مَلَائِکَتِہٖ: اِئْتُوْھُمْ فَحَیُّوْھُمْ، فَتَقُوْلُ الْمَلَائِکَۃُ: نَحْنُ سُکَّانُ سَمَائِکَ وَخِیَرَتُکَ مِنْ خَلْقِکَ، اَفَتَاْمُرُنَا اَنْ نَّاْتِیَ ھٰؤُلَائِ فَنُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ؟ قَالَ: اِنَّہُمْ کَانُوْا عِبَادًا یَعْبُدُوْنِیِّ، لَایُشْرِکُوْنَبِیْ شَیْئًا وَتُسَدُّ بِہِمُ الثُّغُوْرُ وَیُتَّقٰی بِہِمُ الْمَکَارِہُ وَیَمُوْتُ اَحَدُھُمْ وَحَاجَتُہُ فِیْ صَدْرِہٖلَایَسْتَطِیْعُ لَھَا
قَضَائً، قَالَ: فَتَاْتِیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ ذٰلِکَ فَیَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ: {سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} [الرعد: ۲۴]۔)) (مسند احمد: ۶۵۷۰)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے جنت میں کون جائے گا؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے پہلے وہ فقراء اور مہاجرین جنت میں جائیںگے، جن کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا ہے اور جن کے واسطے سے (دشمنوں کے) ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا ہے، جبکہ وہ خود اس حال میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ جاتی ہیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جا کر ان لوگوں کو سلام کہو، فرشتے کہیں گے: اے اللہ!ہم تیرے آسمان کے رہنے والے ہیں اور تیری بہترین مخلوق ہیں، کیا تو ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہم ان لوگوں کے پاس جا کر انہیں سلام کریں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ وہ لوگ ہیں، جو میری عبادت کیا کرتے تھے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، ان کے ذریعے سرحدات کو تحفظ دیا جاتا تھا اور ان کے واسطے سے ناپسندیدہ امور سے بچا جاتا تھا، جبکہ یہ خود اس حال میں وفات پا گئے تھے کہ ان کی خواہشات ان کے دلوں میں ہی رہ گئی تھیں اور وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے، اس کے بعد یہ فرشتے ان کے پاس آئیںگے اور ہر دروازے سے داخل ہو کر یوں سلام پیش کریں گے: {سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ} (تم دنیا میں جو صبر کرتے رہے، اس کی وجہ سے تم پر سلام ہو، یہ تمہارا بہترین ٹھکانہ اور منزل ہے۔) (سورۂ رعد: ۲۲،۲۳)
Musnad Ahmad, Hadith(13300)