قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُوْدٍ: اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَى حَصِيرٍ فَأَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ جَعَلْتُ أَمْسَحُ جَنْبَهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ: أَلَا آذَنْتَنَا حَتَّى نَبْسُطَ لَكَ عَلَى الْحَصِيرِ شَيْئًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَا لِي وَلِلدُّنْيَا؟! مَا أَنَا وَالدُّنْيَا؟! إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا كَرَاكِبٍ ظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا .
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے كہا: كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایك چٹائی پر سوئے تو آپ كے پہلو میں نشان پڑ گیا۔ جب آپ جاگےتو میں آپ کا پہلو سہلانے لگا۔ میں نے كہا: اے اللہ كے رسول ! آپ نے ہمیں بتایا كیوں نہیں ہم آپ كی چٹائی پر كوئی چیز بچھا دیتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے كیا مطلب ؟ اور دنیا كا كیا تعلق؟ میری مثال تو اس سوار كی طرح ہے جو ایك درخت كے نیچے سایہ حاصل كرنے كے لئے بیٹھا، پھر وہاں سے كوچ كر گیا اور درخت كو چھوڑ دیا۔( )
Silsila Sahih, Hadith(1387)