عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنِ ابْن عَبَّاس وَجَابِر ابْن عَبْدِ اللَّهِ قَالَا: لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى ثُمَّ سَأَلْتُهُ يَعْنِي عَطَاءً بَعْدَ حِينٍ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَنِي قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنْ لَا أَذَانَ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ حِينَ يَخْرُجُ الْإِمَامُ وَلَا بعد مَا يَخْرُجُ وَلَا إِقَامَةَ وَلَا نِدَاءَ وَلَا شَيْءَ لَا نِدَاءَ يَوْمَئِذٍ وَلَا إِقَامَةَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابن جریج ؒ بیان کرتے ہیں ، عطاء ؒ نے ابن عباس ؓ اور جابر بن عبداللہ ؓ کے واسطہ سے مجھے بتایا ، انہوں نے فرمایا : عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی تھی ۔ پھر میں نے کچھ مدت بعد عطاء سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے مجھے بتاتے ہوئے کہا : جابر بن عبداللہ ؓ نے مجھے بتایا کہ نماز عید الفطر کے لیے ، امام کے آنے سے پہلے یا اس کے آنے کے بعد کوئی اذان نہیں ہوتی تھی ، اذان و اقامت والی کوئی چیز ہی نہیں تھی ، اس روز اذان تھی نہ اقامت ۔ رواہ مسلم ۔