۔ (۲۳۱)۔عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدٍ الْمَکِّیِّ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِیْلَ لِابْنِ عَبَّاسٍؓ: اِنَّ رَجُلًا قَدِمَ عَلَیْنَا یُکَذِّبُ بِالْقَدَرِ، فَقَالَ: دُلُّوْنِیْ عَلَیْہِ، وَھُوَ یَوْمَئِذٍ قَدْ عَمِیَ، قَالُوْا: وَمَا تَصْنَعُ بِہِ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَئِنِ اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ لَأَعَضَّنَّ أَنْفَہُ حَتَّی أَقْطَعَہُ وَلَئِنْ وَقَعَتْ رَقَبَتُہُ فِیْ یَدَیَّ لَأَدُقَّنَّہَا، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((کَأَنِّیْ بِنِسَائِ بَنِیْ فِہْرٍ یَطُفْنَ بِالْخَزْرَجِ تَصْطَفِقُ أَلْیَاتُہُنَّ مُشْرِکَاتٍ۔)) ھٰذَا أَوَّلُ شِرْکِ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَیَنْتَہِیَنَّ بِھِمْ سُوْئُ رَأْیِہِمْ حَتّٰی یُخْرِجُوْا اللّٰہَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ قَدَّرَ خَیْرًا، کَمَا أَخْرَجُوْہُ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ قَدَّرَ شَرًّا۔ (مسند أحمد: ۳۰۵۴)
محمد بن عبید مکی کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے کہا: ہمارے پاس ایک آدمی آیا ہے، وہ تقدیر کو جھٹلاتا ہے، انھوں نے کہا: مجھے اس کے پاس لے جاؤ، وہ اس وقت نابینا ہو چکے تھے، لوگوں نے کہا: اے ابن عباس! آپ اس کو کیا کریں گے؟ انھوں نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اس پر قابو پا لیا تو اس کے ناک پر کاٹوں گا، یہاں تک کہ اس کو کاٹ دوں گا اور اگر میرے ہاتھوں میں اس کی گردن آ گئی تو اس کو توڑ دوں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: گویا کہ میں بنو فہر کی ان خواتین کو دیکھ رہا ہوں، جو خزرج کا طواف کر رہی ہیں اور ان کے سرین حرکت کر رہے ہیں اور وہ مشرک ہیں۔ یہ اس امت کا پہلا شرک ہو گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان لوگوں کی یہ گھٹیا رائے اِن کو اس مقام تک پہنچا دے گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے بھی نکال دیں کہ اس نے خیر کو مقدّر کیا ہے، جیسا کہ انھوں نے اُس کو اس چیز سے سے نکال دیا کہ اس نے شرّ کو مقدّر کیا ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(231)