۔ (۲۳۷۴) عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ شَرَاحِیْلَ قَالَ: خَرَجْتُ اِلَی ابْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: مَا صَلَاۃُ الْمُسَافِرِ؟ فَقَالَ: رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ اِلَّا صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ ثَـلَاثًا، قُلْتُ: أَرَأَیْتَ اِنْ کُنَّا بِذِی الْمَجَازِ؟ قَالَ: وَمَا ذُوالْمَجَازِ؟ قُلْتُ: مَکَانٌ نَجْتَمِعُ فِیْہِ وَنَبِیْعُ فِیْہِ وَنَمْکُثُ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً أَوْ خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً، قَالَ: یَا أَیُّھَا الرَّجُلُ کُنْتُ بِأَذْرَبِیْجَانَ، لَا أَدْرِی قَالَ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ أَوْ شَہْرَیْنِ، فَرَأَیْتُہُمْ یُصَلُّونَہَا رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ، وَرَأَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نُصْبَ عَیْنَیَّ یُصَلِّیْھِمَا رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ نَزَعَ ھٰذِہِ الْآیَۃَ: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۵۵۵۲)
ثمامہ بن شراحیل کہتے ہیں:میں سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا:مسافر کی نماز کا کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے کہا: دو دو رکعتیں ہے، سوائے نماز مغرب کے، وہ تین رکعت ہے۔ میں نے کہا:آپ کا کیا خیال ہے، اگر ہم ذی المجاز میں ہوںتو؟ انھوںنے کہا: ذوالمجاز کیا ہے؟ میں نے کہا:وہ ایک جگہ کا نام ہے، ہم اس میں جمع ہوتے ہیں اورخرید و فروخت کرتے ہیں اور وہاںپندرہ یا بیس راتیں ٹھہرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:ارے!، میں آذربیجان میں چار یا دو ماہ تک ٹھہرا رہا، میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ وہاں دو دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ پھر سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} تلاوت کی یعنی: یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ آیت سے فارغ ہوگئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(2374)