عَن مُعَاوِيَة بنِ الحكمِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ جَارِيَةً كَانَتْ لِي تَرْعَى غَنَمًا لِي فَجِئْتُهَا وَقَدْ فَقَدَتْ شَاةً مِنَ الْغَنَمِ فَسَأَلْتُهَا عَنْهَا فَقَالَتْ: أَكَلَهَا الذِّئْبُ فَأَسِفْتُ عَلَيْهَا وَكُنْتُ مَنْ بَنِي آدَمَ فَلَطَمْتُ وَجْهَهَا وَعَلَيَّ رَقَبَةٌ أَفَأُعْتِقُهَا؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيْنَ اللَّهُ؟» فَقَالَتْ: فِي السَّمَاءِ فَقَالَ: «مَنْ أَنَا؟» فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْتِقْهَا» . رَوَاهُ مَالِكٌ
وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ قَالَ: كَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِنَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ لَكِنْ صَكَكْتُهَا صَكَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أفَلا أُعتِقُها؟ قَالَ: «ائتِني بهَا؟» فأتيتُه بِهَا فَقَالَ لَهَا: «أَيْنَ اللَّهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ قَالَ: «مَنْ أَنَا؟» قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ الله قَالَ: «أعتِقْها فإنَّها مؤْمنةٌ»
معاویہ بن حکم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چراتی تھی ، میں اس کے پاس آیا تو میں نے ایک بکری نہ پائی ، میں نے اس کے متعلق اس سے پوچھا تو اس نے کہا : اسے بھیڑیے نے کھا لیا ہے ، میں اس سے ناراض ہوا ، چونکہ میں اولاد آدم سے ہوں ، میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا ، (اور کسی وجہ سے) غلام آزاد کرنا مجھ پر واجب ہے ، کیا میں اسے آزاد کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے اس لونڈی سے پوچھا :’’ اللہ کہاں ہے ؟‘‘ اس نے کہا : آسمان میں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں کون ہوں ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے آزاد کر دو ۔‘‘ یہ مالک کی روایت ہے ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے : انہوں (معاویہ بن حکم ؓ) نے کہا : میری ایک لونڈی تھی جو اُحد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چرایا کرتی تھی ، ایک روز میں نے دیکھا کہ بھیڑیا ہماری بکریوں میں سے ایک بکری لے گیا ، چونکہ میں آدم کی اولاد سے ہوں ، میں بھی ناراض ہوتا ہوں جیسے وہ ناراض ہوتے ہیں ، اس لیے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور سارا واقعہ سنایا) آپ نے میری اس حرکت کو بڑا جرم قرار دیا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے میرے پاس لاؤ ۔‘‘ میں اسے آپ کے پاس لے آیا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا :’’ اللہ کہاں ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : آسمان میں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں کون ہوں ؟‘‘ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ مسلمان ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک و مسلم ۔