Blog
Books



۔ (۳۳۲۰) عَنْ طَاؤُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: مَرَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبَرَیْنِ فَقَالَ: ((اِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِِ فِیْ کَبِیْرٍ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ، (قَالَ وَکِیْعٌ مِنْ بَوْلِہٖ) وَأَمَّا الْأٰخَرُ فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ)) ثُمَّ أَخَذَ جَرِیْدَۃً فَشَقَّہَا بِنِصْفَیْنِ، فَغَرَزَ فِیْ کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً، فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لِمَ صَنَعْتَ ہٰذَا؟ قَالَ: ((لَعَلَّہُمَا أَنْ یُّخَفَّفَ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا [قَالَ وَکِیْعٌ تَیْبَسَا])) (مسند احمد: ۱۹۸۰)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ دو قبروں کے پاس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا گزر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا۔ ان دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور وہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا تھا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چھڑی لی، اس کو چیر کر اس کے دو حصے بنا لیے اور ہر حصہ ایک ایک قبر پر گاڑھ دیا، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید ان سے عذاب میں اس وقت تک تخفیف کر دی جائے، جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(3320)
Background
Arabic

Urdu

English