۔ (۳۳۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ ثَنَا سَعِیْدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی عُمَرَ الْغُدَانِیِّ قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ ابْنِ صَعْصَعَۃَ، فَقِیْلَ لَہُ: ہَذَا أَکْثَرُ عَامِرِیٍّ مَالاً، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ : رُدُّوْہُ إِلَیَّ فَرَدُّوْہُ عَلَیْہِ، فَقَالَ نُبِّئْتُ أَنَّکَ ذُوْمَالٍ کَثِیْرٍ؟ فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَاللّٰہِ! إِنَّ لِیْ مِائۃَ حُمْرٍ وَمِائَۃَ أُدْمٍ، حَتّٰی عَدَّ مِنْ أَلَوانِ الإِبِلِ وَأَفَنََانِ الرَّقِیْقِ وَرِبَاطِ الْخَیْلِ، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ : إِیَّاکَ وَأَخْفَافَ الإِبِلِ وَأَظْلَافَ الْغَنَمِ، یُرَدِّدُ ذَالِکَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَعَلَ لَوْنُ الْعَامِرِیِّ یَتَغَیَّرُ أَوْ یَتَلَوَّنُ، فَقَالَ: مَا ذَاکَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یَقُوْلُ: ((مَنْ کَانَتْ لَہُ إِبِلٌ لَا یُعْطِیْ حَقَّہَا (فَذَکَرَ مِثْلَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) وَإِذَا کَانَتْ لَہُ بَقَرٌ لاَ یُعْطِیْ حَقَّھَا فِی نَجْدَتِہَا وَرِسْلِہَا فَإِنَّہَا تَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَغَذِّ مَا کَانَتْ وَأَکْبَرِہِ وَأَسْمَنِہِ وَأَسَرِّہُ، ثُمَّ یُبْطَحُ لَہَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُہٗ فِیْہِ کُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِہَا وَتَنْطَحُہُ کُلُّ ذَاتٍ قَرْنٍ بِقَرْنِہَا، إِذَا جَاوَزَتْہُ أُخْرَاہَا أُعِیْدَتْ عَلَیْہِ أُوْلَاہَا فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ أَلْفَ سَنَۃٍ حََتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَرٰی سَبِیْلَہُ، وَإِذَا کَانَتْ لَہُ غَنَمٌ، (فَذَکَرَ نَحْوَالْحَدِیْثِ الْمُتَقَدِّمِ ثُمَّ قَالَ) فَقَالَ الْعَامِرِیُّ: وَمَا حَقُّ الْإِبِلِ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ!؟ قَالَ أَنْ تُعْطِیَ الْکَرِیْمَۃَ وَتَمْنَحَ الْغَزِیْرَۃَ وَتُفْقِرَالظَّہْرَ، وَتَسْقِیَ اللَّبَنَ وَتُطْرِقَ الْفَحْلَ۔ (مسند احمد: ۱۰۳۵۵)
ابوعمر غدانی کہتے ہیں: میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے بنو عامر بن صعصعہ کے ایک آدمی کا گزر ہوا، اس کے بارے میں ان کو بتایا گیا کہ یہ اپنے قبیلہ کا امیر ترین آدمی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے میرے پاس بلائو، لوگوں نے اسے بلایا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کافی مالدار ہو؟ عامری نے کہا: جی ہاں، اللہ کی قسم! میرے پاس ایک سو گدھے اور ایک سو سفید رنگ کے اونٹ ہیں، پھر اس نے مختلف قسم کے اونٹوں، غلاموں اور گھوڑوں کا ذکر کیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: تم ذرا اونٹوں کے پائوں اور بکریوں کے کھروں سے بچ کر رہنا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اتنی بار یہ بات دوہرائی کہ اس عامری کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا، بالآخر اس نے کہا: اے ابوہریرہ! بھلا آپ کی اس بات کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس آدمی کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے، … … (پھر گزشتہ حدیث کی طرح کی حدیث ذکر کی) اورجس کے پاس گائیں ہوں اور وہ تنگدستی و خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو وہ قیامت کے دن خوب ہوشیار بن کر اور خوب موٹی تازی ہو کر آئیں گی، پھر ان کے لیے ایک چٹیل میدان تشکیل دیا جائے گا (اس مالک کو وہاں لٹا دیا جائے گا)، وہ گائیں اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور سینگوں سے ماریں گی، جب آخری گائے گزر جائے گی تو پہلی کو دوبارہ لایا جائے گا، (یہ سزا اس وقت تک ہوتی رہے گی) جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے، جبکہ اس دن کی مقدار ایک ہزار سال کے برابر ہو گی، پھر دیکھا جائے گا کہ اس کا راستہ (جنت کی طرف ہے یا جہنم کی طرف)۔ اور جس کے پاس بکریاں ہوں، … …(گزشتہ حدیث کی مانند حدیث ذکر کی)عامری نے کہا:اے ابوہریرہ! اونٹوں کا حق کیا ہے؟ انھوں نے کہا: اونٹوں کا حق یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرتے وقت بہترین اونٹ ادا کرو، دودھ والا جانور کسی کو عاریۃً دے دیا کرو، ضرورت مند کو سواری کے لیے اونٹ دیا کرو، اسی طرح دودھ بھی لوگوں کو پلایا کرو اور جفتی کے لیے بھی عاریۃً نر اونٹ دے دیا کرو۔
Musnad Ahmad, Hadith(3368)