۔ (۳۴۹۸) عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ رضی اللہ عنہ (مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا صَلَّی الْعَصْرَ رُبَمَا ذَہَبَ إِلٰی بَنِی عَبْدِ الْاَشْہَلِ فَیَتَحَدَّثُ حَتّٰییَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ،
قَالَ: فَقاَلَ اَبُوْ رَافِعٍ فَبَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُسْرِعًا إِلَی الْمَغْرِبِ إِذْ مَرَّ بِالْبَقِیْعِ، فَقَالَ: ((اُفٍّ لَکَ، اُفٍّ لَکَ۔)) مَرَّتَیْنِ فَکَبُرَ فِی ذَرْعِیْ، وَتَاَخَّرْتُ وَظَنَنْتُ اَنَّہُ یُرِیْدُنْیِ، فَقَالَ: ((مَالَکَ؟ اِمْشِ۔)) قَالَ: قُلْتُ: اَحْدَثْتُ حَدَثًا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَمَا ذَاکَ؟)) قُلْتُ: اَفَّفْتَ بِی، قَالَ: ((لَا، وَلٰکِنْ ھٰذَا قَبْرُ فُلَانٍ بَعَثْتُہُ سَاعِیًا عَلٰی بَنِی فُلَانَ فَغَلَّ نَمِرَۃً، فَدُرِِّعَ الْآنَ مِثْلُہَا مِنْ نَارٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۷۳۴)
۔ مولائے رسول سیدناابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ عصر کی نماز کے بعد بنو عبد الاشھل کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور غروب آفتاب تک وہیں گفتگو میں مگن رہتے۔ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ (وہاں سے فارغ ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب کے لیے جلدی جلدی چلے آ رہے تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقیع سے گزرتے وقت یہ فرمانا شروع کر دیا: تیرے لیے اف ہے، تیرے لیے اف ہے۔ میں نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ کلمات کہہ رہے ہیں اس لیےیہ بات میرے دل پر بڑی گراں گزری اور میں پیچھے کو ہٹنا شروع ہو گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ آگے چلو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: تمہاری مراد کیا ہے؟ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ اف کہہ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ یہ فلاں آدمی کی قبر ہے، میں نے اس کو فلاں قبیلہ کی طرف زکوۃ کا عامل بنا کر بھیجا تھا اور اس نے ایک چادر کی خیانت کی تھی، اب اس کو اس کی بقدر آگ کی قمیص پہنا دی گئی ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(3498)