۔ (۳۵۲۹) عَنْ اَبِی سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَقَدْ سَمِعْتُ فُلَانًا وَ فُلَانًا یُحْسِنَانِ الثَّنَائَ، یَذْکُرَانِ اَنَّکَ اَعْطَیْتَہُمَا دِیْنَارَیْنِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((لٰکِنْ وَاللّٰہِ! فُلَانًا مَا ہُوَ کَذٰلِکَ، لَقَدْ اَعْطَیْتُہُ مِنْ عَشَرَۃٍ إِلٰی مِائَۃٍ، فَمَا یَقُوْلُ ذَاکَ، اَمَا وَاللّٰہِ! إِنَّ اَحَدَکُمْ لَیُخْرِجُ مَسْاَلَتَہُ مِنْ عِنْدِییَتَاَبَّطُہَایَعْنِی تَکُوْنَ تَحْتَ إِبْطِہِ یَعْنِی نَارًا۔)) قَالَ: قاَلَ عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لِمَ تُعْطِیْہَا إِیَّاہَمْ؟ قَالَ: ((فَمَا اَصْنَعُ؟ یَاْبَوْنَ إِلاَّ ذَاکَ وَیَاْبَیْ اللّٰہُ لِیَ الْبَخْلَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۱۷)
۔ سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے فلاں اور فلاں آدمی کو سنا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ِ خیر کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دو دینار دیئے تھے، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم!فلاں آدمی تو اس طرح کا نہیںہے، میں نے تو اسے دس سے سو دینار دیئے ہیں، لیکن اس نے تو (احسان مند ہونے کی اور اچھے کلمات کہنے کی) کوئی بات ہی نہیں کی۔ خبردار! اللہ کی قسم ہے کہ تم میں سے ایک آدمی کا سوال مجھ سے کوئی مال نکال تو لیتا ہے، پھر بغل میں دبا کر چلا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اپنی بغل کے نیچے آگ دے رہا ہوتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کو دیتے کیوں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں کیا کروں، وہ مانگنے سے باز نہیں آتے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بخل نہیں کرنے دیتا۔
Musnad Ahmad, Hadith(3529)