۔ (۴۱۳۷) عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا سُرَیْجٌ
وَیُوْنُسُ قَالَا ثَنَا حَمَّاٌد یَعْنِی ابْنَ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عَاصِمٍ الْغَنَوِیِّ عَنْ أَبِی طُفَیْلِ، قَالَ: قُلْتُ لِأبْنِ عَبَّاسٍ: یَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَمَلَ بِالْبَیْتِ، وَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، قَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، قُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ قَالَ: صَدَقُوْا، رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِالْبَیْتِ، وَکَذَبُوْا ، لَیْسَ بِسُنَّۃٍ، إِنَّ قُرَیْشَاً قَالَتْ زَمَنَ الْحُدَیْبَیِۃ: دَعُوْا مُحَمَّدً وَأَصْحَابَہُ حَتّٰییَمُوْتُوْا مَوْتَ النَّغَفِ، فَلَمَّا صَالَحُوہُ عَلٰی أَنْ یَقْدَمُوْا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ وَیُقِیْمُوْا بِمَکَّۃَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَقَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَالْمُشْرِکُوْنَ مِنْ قِبَلِ قُعَیْقِعَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِأَصْحَابِہِ: اُرْمُلُوْا بِالْبَیْتِ ثَلَاثًا۔)) وَلَیْسَ بِسُنَّۃٍ۔ قُلْتُ: وَیَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّہُ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ عَلٰی بَعِیْرٍ وَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، فَقُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ فَقَالَ: صَدَقُوْا قَدْ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَکَذَبُوْا لَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ، کَانَ النَّاسُ لَا یُدْفَعُوْنَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَا یُصْرَفُوْنَ عَنْہُ، فَطَافَ عَلَی بَعِیْرٍ لِیَسْمَعُوْا کَلَامَہُ وَلَا تَنَالُہُ أَیْدِیْہِمْ، قُلْتُ: وَیَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سَعٰی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ َوَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، قَالَ: صَدَقُوْا، إِنَّ إِبْرَہِیْمَ لَمَا أُمِرَ بِالْمَنَاسِکِ عَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ عِنْدَ المَسْعٰی فَسَابَقَہُ فَسَبَقَہُ إِبْرَاہِیْمُ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلٰی جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فَعَرَضَ لَہُ شَیْطَانٌ (وَفِی لَفْظٍ الشَّیْطَانُ) فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتَّی ذَہَبَ، ثُمَّ عَرَضَ لَہُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ الْوَسْطٰی فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، قَالَ: قَدْ تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ(وَفِیْ لَفْظٍ وَثَمَّ تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ) وَعَلٰی إِسْمَاعِیْلَ قَمِیْصٌ أَبْیَضُ، وَقَالَ: یَا أَبَتِ إِنَّہُ لَیْسَ لِی ثََوْبٌ تُکَفِّنُنِی فِیْہِ غَیْرَہُ فَاخْلَعْہُ حَتّٰی تُکَفِّنَنِیْ فِیْہِ، فَعَالَجَہُ لِیَخْلَعَہُ فَنُوْدِیَ مِنْ خَلْفِہِ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمْ! قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا فَالْتَفَتَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِذَا ہُوَ بِکَبْشٍ أَبْیَضَ أَقْرَنَ أَعْیَنَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَتَّبَّعُ ہٰذَا الضَّرْبَ مِنَ الْکِبَاشِ، (قَالَ) ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلَی الْجَمْرَۃِ الْقُصْوٰی، فَعَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتّٰی ذَہَبَ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلٰی مِنًی قَالَ: ہٰذَا مِنًی (وَفِیْ لَفْظٍ: ہَذَا مُنَاخُ النَّاسِ) ثُمَّ أَتٰی بِہِ جَمْعًا، فَقَالَ: ہٰذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ إِلٰی عَرَفَۃَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہَلْ تَدْرِی لِمَ سُمِّیَتْ عَرَفَۃُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: إِنَّ جِبْرِیْلَ قَالَ لإِبْرَاہِیْمَ: عَرَفْتَ، (وَفِیْ لَفْظٍ: ہَلْ عَرَفْتَ)؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّیَتْ عَرَفَۃَ، ثُمَّ قَالَ: ہَلْ تَدْرِیْ کَیْفَ کَانَتِ التَّلْبِیَۃُ؟ قُلْتُ: وَکَیْفَ کَانَتْ؟ قَالَ: إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَمَا أُمِرَ أَنْ یُؤَذِّنَ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ خَفَضَتْ لَہُ الْجِبَالُ رُئُ ْوسَہَا وَرُفِعَتْ لَہُ الْقُرٰی فَأَذَّنَ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۷)
۔ ابوطفیل کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ٓپ کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت رمل کیا تھا، لہٰذا یہ عمل سنت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کییہ بات کسی حد تک درست بھی اور کسی حد تک غلط بھی، میں نے کہا: اس کا کیا مطلب کہ درست بھی ہے اور غلط بھی؟ انھوں نے کہا:ان کییہ بات تو درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت رمل کیا تھا، البتہ اس عمل کو سنت کہنا درست نہیں،یہ عمل سنت نہیں ہے، اس کی تفصیلیہ ہے کہ قریشیوں نے (توہین کرتے ہوئے) حدیبیہ کے دنوں میں کہا تھا: محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور ان کے دوستوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہیہ لوگ اپنی موت آپ مر جائیں، جب قریش کا آپ سے اس بات پر معاہدہ ہو گیا کہ مسلمان آئندہ سال آ کر مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، مشرکینِ مکہ قعیقان پہاڑ کی جانب تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے تین چکروں میں رمل کرو۔ لہٰذا یہ عمل سنت نہیں ہے۔ ابو طفیل کہتے ہیں: میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی اونٹ پر کی تھی اور یہ عمل سنت ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کییہ بات بھی کچھ صحیح اور کچھ غلط ہے۔ ان کا یہ کہنا تو درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا و مروہ کی سعی اونٹ پر کی تھی، لیکن ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ عمل سنت ہے، اصل بات یہ ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے سے ہٹائے نہیں جاتے تھے، (اور وہ خود بھی آپ سے الگ اور دور نہیں ہوتے تھے) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ پر سعی کی تھی، تاکہ لوگوں کے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہ پہنچ سکیں اور وہ آسانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بھی سن لیں۔ ابوطفیل کہتے ہیں: میں نے کہا: آپ کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفا و مروہ کے مابین دوڑے تھے اور یہ عمل سنت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کییہ بات درست ہے، جب ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج ادا کرنے کا حکم ہوا تو سعی کے موقعہ پر شیطان ان کے سامنے آ گیا اور آگے نکل گیا، لیکن پھر ابراہیم علیہ السلام دوڑ کر اس سے آگے نکل گئے، اس کے بعد جبریل علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کو جمرۂ عقبہ کے پاس لے گیا،وہاں شیطان ان کے سامنے آیاتو انھوںنے اسے سات کنکر مارے، سو وہ چلا گیا، پھرجب جمرۂ وسطیٰ کے قریب ان کے سامنے آیا تو انہوں نے دوبارہ اسے سات کنکر مارے، اس موقعہ پر ابراہیم علیہ السلام نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ان کے پہلو کے بل لٹایا، وہ سفید قمیض پہنے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: ابا جان! اس قمیض کے علاوہ میرا کوئیکپڑا ایسا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں گے، اس لیے اس قمیض کو اتار لیجئے تاکہ آپ مجھے اس میں کفن دے سکیں، جب ابراہیم، اسمٰعیلm کی قمیض اتارنے لگے تو ان کے پیچھے سے یہ آواز آئی: ابراہیم! آپ نے خواب سچا کر دکھایا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر ادھر دیکھا تو وہاں ایک سفید سینگ دار خوبصورت فراخ چشم مینڈھا موجود تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:ہم قربانی کے لئے اسی قسم کے مینڈھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بعد جبریل، ابراہیمm کو جمرۂ قصویٰ کی طرف لے گئے، وہاں شیطان ایک مرتبہ پھر سامنے آیا، ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکر مارے، سووہ بھاگ گیا، اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو جبریل علیہ السلام منیٰ کی طرف لے گئے اور بتلایا کہ یہ منیٰ ہے، دوسری روایت میں ہے: انہوں نے بتلایاکہیہ لوگوں کی قیام گاہ ہے، اس کے بعد جبریل، ابراہیمm کو مزدلفہ میں لے گئے اور بتلایا کہ یہ مشعرِ حرام ہے، اس کے بعد وہ انہیں عرفہ میں لے گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس نے پوچھا: جانتے ہو کہ عرفہ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں۔ انھوں نے کہا: جب جبریل، ابراہیمm کو یہاں لے آئے تو ان سے پوچھا: کیا آپ یہ سب امور جان گئے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس وجہ سے اس وادی کا نام عرفہ رکھا گیا۔اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم جانتے ہو کہ تلبیہ کی ابتدا کیسے ہوئی؟ میں نے کہا: جی کیسے ہوئی؟ انھوں نے کہا: جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تو ان کی آواز پر پہاڑوں نے سر جھکا دیئے اور تمام آبادیاں بلند کر دی گئیں تب انہوںنے لوگوں میں حج کا اعلان کیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(4137)