۔ (۴۱۷۵) عَنْ أَبِی مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: بَعَثَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰی أَرْضِ قَوْمِی، فَلَمَّا حَضَرَ الْحَجُّ حَجَّ رَسُوْلُ
اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَحَجَجْتُ فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ نَازِلٌ بِالأَبْطَحِ، فَقَالَ لِی: ((بِمَ أَہْلَلْتَ یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: لَبَّیْکَ بِحَجٍّ کَحَجِّ رَسُوْل اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ: ((أَحْسَنْتَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((ہَلْ سُقْتَ ہَدْیًا؟)) فَقُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ لِی: ((اِذْہَبْ فَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ ثُمَّ احْلِلْ۔)) فَانْطَلَقْتُ فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِی، وَأَتَیْتُ امْرَاۃً مِنْ قَوْمِی، فَغَسَلَتْ رَأْسِی بِالْخِطْمِیِّ وَفَلَتْہُ ثُمَّ أَہْلَلْتُ بِالْحَجِّ یَوْمَ الرَّوِیَۃِ، فَمَا زِلْتُ أُفْتِی النَّاسَ بِالَّذِیْ أَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ، ثُمَّ زَمَنَ أَبِی بَکْرٍ رضی اللہ عنہ ، ثُمَّ زَمَنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہ ، فَبَیْنَا أَنَا قَائِمٌ عِنْدَ الْحَجَرِ اْلأَسْوَدِ أَوِ الْمَقَامِ ، أُفْتِی النَّاسَ بِالَّذِی أَمَرَنِی بِہٖرَسُوْلُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذْ أَتَانِی رَجُلٌ فَسَارَّنِی فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ بِفُتْیَاکَ، فَإِنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ قَدْ أَحْدَثَ فِیْ الْمَنَاسِکِ شَیْئًا، فَقُلْتُ: أَیُّہَا النَّاسَ! مَنْ کُنَّا أَفْتَیْنَاہُ فِیْ الْمَنَاسِکِ شَیْئًا، فَلْیتََّئِدْ، فَإِنَّ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ قَادِمٌ فِیْہِ فَأْتَمُّوْا، قَالَ: فَقَدِمِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ فَقُلْتُ: یاَ أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! ہَلْ أَحْدَثْتَ فِیْ الْمَنَاسِکِ شَیْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنْ نَأْخُذْ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَإِنَّہُ یَأْمُرُ بِالتَّمَامِ (وَفِیْ لَفْظٍ فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ: {وَأَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ}) وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّۃِ نَبِیِّنَا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَإِنَّہُ لَمْ یَحْلِلْ حَتّٰی نَحَرَ الْہَدْیَ۔ (مسند احمد: ۱۹۷۳۴)
۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے میری قوم کی طرف (یمن کے علاقہ میں) عامل بنا کر روانہ کیا، جب حج کا موسم آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے لئے روانہ ہوئے تو میں بھی حج کا ارادہ کرکے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میری ملاقات ابطح وادی میں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے عبد اللہ بن قیس!تم نے کیسے احرام باندھا ہے؟ یعنی کن الفاظ کے ساتھ نیت کی ہے؟میں نے کہا: میں نے کہا تھاکہ میں اس حج کے لیے حاضر ہوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حج ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہت اچھا کیا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم قربانی کا جانور ہمراہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر جاؤ اوربیت اللہ کا طواف کرکے صفا مروہ کی سعی کرو اور احرام کھول دو۔ پس میں گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق عمل کیا، اس کے بعد میں اپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس گیا، انہوں خطمی بوٹی کے ساتھ میرا سر دھویا اور اس سے جووئیں تلاش کیں ، اس کے بعد آٹھ ذوالحجہ کو میں نے حج کا احرام باندھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جو کچھ فرمایا تھا، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک اسی طرح لوگوں کو فتوے دیتا رہا، بعد ازاںعہد صدیقی اور عہدفاروقی میں بھییہ سلسلہ جاری رہا، اچانک ایک دن میں حجر اسود یا مقام ابراہیم کے پاس کھڑا یہی بات بیان کر رہا تھا کہ ایک آدمی میرے قریب آیا اور اس نے آہستہ سے مجھے کہا: تم فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرو، امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مناسک ِ حج کے متعلق ایک نیا حکم جاری کیا ہے، میں نے بآواز بلند کہا: لوگو! ہم نے مناسک کے بارے میں جس کسی کو فتویٰ دیا ہے وہ ذرا رک جائے، امیر المومنین تشریف لانے والے ہیں، تم ان کی اقتدا کرنا، وہ جیسے کہیں گے، ویسے کرنا، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو میں نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! کیا آپ نے مناسک ِ حج کے متعلق کوئی نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، بات یہ ہے کہ اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کریں تو وہ ہمیں حج و عمرہ کو مکمل کرنے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَأَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ}( تم حج و عمرہ کو اللہ تعالی کے لئے پورا کرو) (سورۂ بقرۃ:۱۹۶) اوراگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی جانور ذبح کرنے کے بعد احرام کھولا تھا۔
Musnad Ahmad, Hadith(4175)