۔ (۴۲۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا یَحْیٰی عَن عُبَیْدِ اللّٰہِ أَخْبَرْنِی نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ کَلَّمَا عَبْدَ اللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہما ) حِیْنَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ لِقِتَالِ ابْنِ الزُّبَیْرِ، فَقَالَا: لَا یَضُرُّکَ أَنْ لَا تَحُجَّ ھٰذَا الْعَامَ، فَإِنَّا نَخْشٰی أَنْ یَکُوْنَ بَیْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، وَأَنْ یُحَالَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْبَیْتِ، قَالَ: إِنْ حِیْلَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ فَعَلْتُ کَمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَنَا
مَعَہُ حِیْنَ حَالَتْ کُفَّارُ قُرَیْشٍ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْبَیْتِ، اُشْہِدُکُمْ أَنِّی قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَۃً فَإِنْ خُلِّیَ سَبِیْلِیْ قَضَیْتُ عُمْرَتِی، وَإِنْ حِیْلَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ فَعَلْتُ کَمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَنَا مَعَہُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتّٰی أَتٰی ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَلَبّٰی بِعُمْرَۃٍ ثُمَّ تَلَا {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ثُمَّ سَارَ حَتّٰی إِذَا کَانَ بِظَہْرِ الْبَیْدَائِ، قَالَ: مَا أَمْرُہُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، إِنْ حِیْلَ بَیْنِی وَبَیْنَ الْعُمْرَۃِ حِیْلَ بَیْنِی وَبَیْنَ الْحَجِّ، اُشْہِدُکُمْ أَنِّی قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّۃً مَعَ عُمْرَتِیْ، فَانْطَلَقَ حَتّٰی ابْتَاعَ بِقُدَیْدٍ ہَدْیًا ثُمَّ طَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا بِالْبَیْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْکَذَالِکَ إِلٰییَوْمِ النَّحْرِ۔ (مسند احمد: ۵۱۶۵)
۔ نافع کرتے ہیں کہ جس سال حجاج ،سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا ہوا تھا، اس سال سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں عبد اللہ اور سالم نے اپنے باپ سے کہا: اس سال جنگ کا خطرہ ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ حج کے لئے نہ جائیں ، کیونکہیہ اندیشہ ہے کہ لڑائی کی وجہ سے آپ بیت اللہ تک نہیں پہنچ سکیں گے، انہوں نے کہا: اگر بیت اللہ تک جانے میں کوئی رکاوٹ آ گئی تو میں اسی طرح کروں گا، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر کیا تھا، جب کفارِ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیت اللہ کی طرف جانے سے روک دیا تھا۔ اب میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ کا ارادہ کر چکا ہوں، اگر مجھے نہ روکا گیا تو عمرہ ادا کر لوں گا اور اگر بیت اللہ تک پہنچنے میں مجھے رکاوٹ پیش آ گئی تو میں اسی طرح کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا، جبکہ اُس موقع پر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا،اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سفر شروع کر دیا، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو انہوں نے عمرے کا احرام باندھا اور تلبیہ پڑھا۔ اور یہ آیت تلاوت کی: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (سورۂ احزاب: ۲۱) تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہتریننمونہ ہے۔ اس کے بعد آگے کو روانہ ہوئے اور جب بیداء کے اوپر پہنچے تو کہا: حج اور عمرے کے احکام تو ایک جیسے ہی ہیں، اگر میرے عمرے کے سامنے کوئی رکاوٹ آ گئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میرے حج کے سامنے بھی رکاوٹ آ جائے گی، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں عمرہ کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ رہا ہوں، اس کے بعد وہ آگے کو روانہ ہوئے اور قدید کے مقام پر جا کر قربانی کا جانور خریدا۔ پھر مکہ پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کے لئے بیت اللہ کا ایک طواف اور صفا مروہ کی ایک سعی کی، اس کے بعد یوم النحریعنی دس ذوالحجہ تک اسی طرح رہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(4217)