۔ (۴۴۱۱)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صُبْحَ أَرْبَعٍ
مَضَیْنَ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ مُہَلِّیْنَ بِالْحَجِّ کُلُّنا، فَأَمَرَنَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَطُفْنَا بِالْبَیْتِ وَصَلَّیْنَا الرَّکْعَتَیْنِ وَسَعَیْنَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، ثُمَّ أَمَرَنَا فَقَصَّرْنَا ثُمَّ قَالَ: ((أَحِلُّوْا۔)) قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حِلُّ مَاذَا؟ قَالَ: ((حِلُّ مَا یَحِلُّ لِلْحَلَالِ مِنَ النِّسَائِ وَالطِّیْبِ۔)) قَالَ: فَغُشِیَتِ النِّسَائُ وَسَطَعَتِ الْمَجَامِرُ، قَالَ خَلَفٌ: وَبَلَغَہُ أَنَّ بَعْضَہُمْ یَقُوْلُ: یَنْطَلِقُ اَحَدُنَا اِلٰی مِنًی وَذَکَرُہٗیَقْطُرُ مَنِیًّا، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَ: فَقَدْ بَلَغَنِی الَّذِیْ قُلْتُمْ وَإِنِّی لَأَتْقَاکُمْ وَأَبَرُّکُمْ)۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْہَدْیَ، وَلَوْ لَمْ أَسُقِ الْھَدْیَ لَأَحْلَلْتُ۔)) قَالَ: ((فَخُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ۔)) قَالَ: فَاَقَامَ الْقَوْمُ بِحِلِّہِمْ حَتّٰی إِذَا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ، وَأَرَادُوْا التَّوَجُّہَ إِلٰی مِنًی أَھَلُّوْا بِالْحَجِّ، قَالَ: فَکَانَ الْھَدْیُ عَلٰی مَنْ وَجَدَ، وَالصِّیَامُ عَلٰی مَنْ لَمْ یَجِدْ وَأَشْرَکَ بَیْنَہُمْ فِیْ ھَدْیِہِمْ، اَلْجَزُوْرُ بَیْنَ سَبْعَۃٍ، وَالْبَقْرَۃُ بَیْنَ سَبْعَۃٍ وَکَانَ طَوَافُہُمْ بِالْبَیْتِ وَسَعْیُہُمْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لِحَجِّہِمْ وَعُمْرَتِہِمْ طَوَافًا وَاحِدًا وَسَعْیًا وَاحِدًا۔ (مسند احمد: ۱۵۰۰۶)
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد دودورکعت نماز پڑھی، پھر ہم نے صفا مروہ کی سعی کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بال کٹوانے کاحکم دیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حلال ہوجائو یعنی احرام کھول دو۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے لیے حلال ہونا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ چیز حلال سمجھو جو احرام کے بغیر حلال ہوتی ہے، مثلاً خوشبو اور بیوی وغیرہ۔ پس عورتوں سے مجامعت کی گئی اور خوشبوئیں مہک اٹھیں۔خلف کہتے ہیں:جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات موصول ہوئی کہ بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کے بارے میں کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ہم منیٰ کی طرف جارہے ہوں گے تو ہماری شرم گاہیں منی ٹپکا رہی ہوں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خطبہ دیا اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: تمہاری باتیں مجھ تک پہنچ چکی ہیں، میں تم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ نیک ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس بات کا مجھے بعد میں پتہ چلا، اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں سرے سے قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اگر میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لایاہوتا تو میں بھی حلال ہوجاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے حج کے احکام ومسائل سیکھ لو۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پس لوگ حلال ہوگئے اور اسی حالت پر برقرار رہے، یہاں تک کہ جب آٹھ ذوالحجہ کا دن آ گیا اور وہ منیٰ کو جانے لگے تو انہوں نے حج کا احرام باندھا، جو لوگ صاحبِ استطاعت تھے انہوں نے قربانیکی اور جو لوگ صاحب استطاعت نہ تھے انہوں نے قربانی کے عوض دس روزے رکھے اور آپ نے صحابہ کو اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات سات آدمیوں کو شریک کیا اور حج قران والوں کے لئے بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی تھی۔
Musnad Ahmad, Hadith(4411)