۔ (۴۴۱۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: کَانُوْا یَرَوْنَ الْعُمْرَۃَ فِی أَشْہُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُوْرِ فِی الْأَرْضِ وَیَجْعَلُوْنَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَیَقُوْلُوْنَ: إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ، وَعَفَا الْأَثَرْ، وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَۃُ لِمَنِ
اعْتَمَرْ۔ فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَصْحَابُہٗلِصَبِِیْحَۃِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِصُبْحِ) رَابِعَۃٍ مُہِلِّیْنَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوْھَا عُمْرَۃً، فَتَعَاظَمَ ذَالِکَ عِنْدَھُمْ، فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: ((اَلْحِلُّ کُلُّہُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۷۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے، اس لئے وہ لوگ مہینوں میں تقدیم وتاخیر کرتے اور محرم کو صفرقراردیتے اور وہ کہا کرتے تھے:جب سفر کی وجہ سے اونٹوں کو آئے ہوئے زخم درست ہوجائیں، راستوں سے قافلوں کی آمدورفت کے نشانات مٹ جائیں اور صفر کامہینہ گزر جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لئے عمرہ کرنا حلال ہو گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ چارذوالحجہ کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ اسے حج کی بجائے عمرہ کا احرام قراردیں اور عمرہ کرکے احرام کھول دیں۔ لیکن انھوں نے تو اس بات کو بہت بڑا خیال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا حلال ہونا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مکمل طور پرحلال ہونا۔
Musnad Ahmad, Hadith(4414)