۔ (۴۴۵۷) عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ: کُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِعَرَفَاتٍ فَلَمَّا کَانَ حِیْنَ رَاحَ رُحْتُ مَعَہُ، أَتَی الإِمَامُ فَصَلَّی مَعَہُ الْأُوْلٰی وَالْعَصْرَ، ثُمَّ وَقَفَ مَعَہُ وَأَنَا وَأَصْحَابٌ لِیْ حَتّٰی أَفَاضَ الإِمَامُ فَأَفْضََنا مَعَہُ حَتّٰی انْتَہَیْنَا إِلَی الْمَضِیْقِ دُوْنَ الْمَأْ زِمَیْنِ فَأَنَاخَ وَأَنَخْنَا وَنَحْنُ نَحْسَبُ أَنَّہُ یُرِیْدُ أَنْ یُصَلِّیَ، فَقَالَ غُلَامُہُ الَّذِیْیُمْسِکُ رَاحِلَتَہُ: إِنَّہُ لَیْسَیُرِیْدُ الصَّلَاۃَ، وَلٰکِنَّہُ ذَکَرَ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا انْتَہٰی إِلٰی ھٰذَا الْمَکَانِ قَضٰی حَاجَتَہُ، فَہُوَ یُحِبُّ أَنْ یَقْضِیَ حَاجَتَہُ۔ (مسند احمد: ۶۱۵۱)
۔ انس بن سیرین کہتے ہیں: میں عرفات میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھا، جب روانگی کا وقت ہوا تو میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا، جب امام آیا تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں، پھر انہوں نے امام کے ساتھ وقوف کیا، میں اور میرے دوسرے احباب بھی ساتھ تھے، جب امام غروب آفتاب کے بعد عرفات سے روانہ ہوا تو ہم بھی ان کے ہمراہ چل پڑے، حتیٰ کہ جب ہم مَأْزِم نامی دو پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستے میں پہنچ گئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی سواری کو بٹھا دیا،یہ دیکھ کر ہم نے بھی سواریاں بٹھادیں، ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے جس غلام نے ان کی سواری کی رسی پکڑی ہوئی تھی، اس نے بتلایا کہ وہ یہاں نماز ادا نہیں کرنا چاہتے،ان کے اترنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ بات یاد آئی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قضائے حاجت کی تھی، اب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھییہاں قضائے حاجت کرنا چاہتے ہیں۔
Musnad Ahmad, Hadith(4457)