۔ (۵۰۱۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: کُنْتُ فِی سَرِیَّۃٍ مِنْ سَرَایَا رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَحَاصَ النَّاسُ حَیْصَۃً، وَکُنْتُ فِیمَنْ حَاصَ، فَقُلْنَا: کَیْفَ نَصْنَعُ وَقَدْ فَرَرْنَا مِنْ الزَّحْفِ وَبُؤْنَا بِالْغَضَبِ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ دَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ فَبِتْنَا ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَإِنْ کَانَتْ لَہُ
تَوْبَۃٌ وَإِلَّا ذَہَبْنَا، فَأَتَیْنَاہُ قَبْلَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ، فَخَرَجَ فَقَالَ: ((مَنِ الْقَوْمُ؟)) قَالَ: فَقُلْنَا نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، قَالَ: ((لَا بَلْ أَنْتُمْ الْعَکَّارُونَ، أَنَا فِئَتُکُمْ، وَأَنَا فِئَۃُ الْمُسْلِمِینَ۔)) قَالَ: فَأَتَیْنَاہُ حَتّٰی قَبَّلْنَا یَدَہُ۔ (مسند أحمد: ۵۳۸۴)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجے ہوئے سرایا میں سے ایک سریّہ کی بات ہے، میں خود بھی اس میں تھا، لوگوں نے بھاگنا شروع کر دیا اور میں بھی فرار اختیار کرنے والوں میں سے تھا، پھر ہم نے کہا: اب ہم کیا کریں، ہم تو لڑائی سے بھاگے ہیں اور غضب ِ الہی کے ساتھ لوٹے ہیں، پھر ہم نے کہا: اب ہم مدینہ میں داخل ہو جائیں اور اندر جا کر رات گزاریں، لیکن پھر ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کرتے ہیں، اگر توبہ کا حق ہوا تو ٹھیک، وگرنہ ہم چلے جائیں گے، پس ہم نمازِ فجر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تو پوچھا: کون لوگ ہیں؟ ہم نے کہا: جی ہم ہیں، لڑائی سے بھاگ کر آ جانے والے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں، بلکہ تم تو قتال کی طرف پلٹ جانے والے ہو اور میں تمہارا مدد گار ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی پناہ گاہ اور ان کا مددگار ہوں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بوسہ لیا۔
Musnad Ahmad, Hadith(5012)