۔ (۵۰۶۶)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ یَقُولُ فِی یَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا
بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا، فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۰۰)
۔ ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ والے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن اور اس کو تقسیم کرنے والا بنایا ہے، بلکہ یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے اور میں اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل سے اور پھر ان کے بعد شرف والے لوگوں سے شروع کرنے والا ہوں، پھر انھو ںنے امہات المؤمنین کو دس ہزار درہم دیئے، ما سوائے سیدہ جویریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہF کے، لیکن جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمارے ما بین برابری کرتے تھے تو انھوں نے ان کو برابر برابر مال دے دیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد میں اپنے پہلے پہل ہجرت کرنے والے صحابہ سے شروع کرتا ہوں، کیونکہ ظلم و زیادتی سے ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، پھر ان کے بعد زیادہ شرف والے صحابہ کو مد نظر رکھا اور بدر والے مہاجرین کے پانچ پانچ ہزار اور انصار کے لیے چار چار ہزار درہم مقرر کیے، اور احد میں شریک ہونے والوں کو تین تین ہزار درہم دیئے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ہجرت میںجلدی کی، اس کے عطیہ میں جلدی کی جائے گی اور جس نے ہجرت میں تاخیر کی، اس کے عطیہ میں بھی تاخیر ہو گی، پس کوئی آدمی ملامت نہ کرے، مگر اپنی اونٹنی کی بیٹھنے والی جگہ پر، (یعنی اگر کسی آدمی کو تاخیر سے ہجرت کرنے کی بنا پر تھوڑا حصہ مل رہا ہے تو وہ اپنے پیچھے رہ جانے کی مذمت کرے)۔
Musnad Ahmad, Hadith(5066)