۔ (۵۰۸۵)۔ عَنْ عَمِّہِ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَامَ حِینَ جَائَ ہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، فَسَأَلُوْا أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ فَاخْتَارُوْا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، إِمَّا السَّبْیَ وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ۔)) وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ
اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوْا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی الْمُسْلِمِینَ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُ وْا تَائِبِین،َ وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلٰی حَظِّہِ حَتّٰی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیء ُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوْا حَتّٰی یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ۔)) فَجَمَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ ثُمَّ رَجَعُوْا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا، ہٰذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَََََ۔ (مسند أحمد: ۲۹۱۲۱)۱۹۱۲۱
۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مروان اور سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو بیان کیا کہ جب ہوازن کا وفد مطیع ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مال اور قیدی ان کو لوٹا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: میرے ساتھ جو لوگ ہیں، تم ان کو دیکھ رہے ہو، (یہ غنیمت ان کا حق ہے)، اور میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات سچی ہے، لہذا تم دو چیزوں میں ایک کو پسند کر لو اور وہ اس طرح کہ قیدی لے لو یا مال، میں نے تمہاری وجہ سے ہی تقسیم کرنے میں تاخیر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف سے لوٹنے کے بعد پندرہ سولہ دنوں تک ان کا انتظار کیا تھا، جب ان کے لیے واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ایک چیز ہی دینی ہے تو انھوں نے کہا: جی ہم اپنے قیدیوں کو ترجیح دے گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، جو اس کے شایانِ شان تھی اور پھر فرمایا: أَمَّـا بَعْـدُ! یہ تمہارے بھائی نادم ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے قیدی ان کو واپس کر دیئے جائیں، جو آدمی اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہتا ہے، وہ میرے فیصلے کو قبول کر لے اور جو آدمی اپنا حصہ لینا چاہے تو ہم اس کے عوض اس کو اس مال میں سے دے دیں گے، جو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ہم کو عطا کرے گا، ایسا شخص بھی اپنے فیصلے کا اظہار کر دے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اسی فیصلے کو خوشی سے قبول کیا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمیں علم نہیں ہو رہا ہے کہ تم میں کون اجازت دے رہا ہے اور کون نہیں دے رہا، لہذا تم لوٹ جاؤ اور تمہارے سردار تمہاری رضامندی کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ پس انھوں نے لوگوں کو جمع کیا، ہر ایک قبیلے سے اس کے سردار نے بات کی اور پھر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کو بتلایا کہ لوگ واقعی اپنی خوشی سے آپ کے فیصلے کو قبول کر رہے ہیں اور اجازت دے رہے ہیں، یہ وہ بات ہے، جو ہوازن کے قیدیوں کے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(5085)