۔ (۵۱۱۴)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: کَانَتْ ثَقِیفٌ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَیْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَجُلًا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ وَأُصِیبَتْ مَعَہُ الْعَضْبَائُ، فَأَتٰی عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟۔)) فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِی بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَۃَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذٰلِکَ، فَقَالَ: ((أَخَذْتُکَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکَ ثَقِیفٍ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ!، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رَحِیمًا رَفِیقًا، فَأَتَاہُ فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالَ: ((لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) فَقَالَ: إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی وَظَمْآنُ فَاسْقِنِی، قَالَ: ((ہٰذِہِ حَاجَتُکَ۔)) قَالَ: فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۳۶)
۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، بنو ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو صحابہ کو قید کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی گرفتار کر لیا، اس کے ساتھ عَضْبَاء نامی اونٹنی بھی پکڑی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس قیدی کے پاس آئے، جبکہ وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا تو اس نے کہا: اے محمد! اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے، آپ نے اس اونٹنی کو کیوں پکڑ لیا، جو حاجیوں کے قافلے سے آگے گزر جاتی تھی؟ وہ اس گرفتاری کو بڑا خیال کر رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے تیر حلیف بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے پھر گئے، لیکن اس نے پھر کہا: اے محمد! اے محمد! چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحم دل اور نرم تھے، اس لیے اس کے پاس آ گئے اور اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کرتا، جب تو اپنے معاملے کامالک اور آزاد تھا تو تو مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے گئے، اس نے پھر آواز دی: اے محمد! اے محمد! پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: کیا ہو گیا ہے تجھے؟ اس نے کہا: جی میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں، مجھے پانی پلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تیری ضرورت ابھی پوری کر دی جاتی ہے۔ اس قیدی کے فدیے میں دو آدمی لیے گئے تھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(5114)