۔ (۵۱۳۸)۔ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: کَانَ مُعَاوِیَۃُ یَسِیرُ بِأَرْضِ الرُّومِ، وَکَانَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَہُ أَمَدٌ، فَأَرَادَ أَنْ یَدْنُوَ مِنْہُمْ، فَإِذَا انْقَضَی الْأَمَدُ غَزَاہُمْ، فَإِذَا شَیْخٌ عَلٰی دَابَّۃٍ یَقُولُ: اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَفَائٌ لَا غَدْرٌ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ فَلَا یَحُلَّنَّ عُقْدَۃً وَلَا یَشُدَّہَا حَتّٰی یَنْقَضِیَ أَمَدُہَا أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَائٍ۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ مُعَاوِیَۃَ فَرَجَعَ وَإِذَا
الشَّیْخُ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ۔ (مسند أحمد: ۱۷۱۴۰)
۔ سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ روم کی سرزمین میں چل رہے تھے، جبکہ اُن کے اور اِن کے مابین معاہدہ تھا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ان کے قریب ہو جائیں، تاکہ جب عہد کی مدت ختم ہو ان پر حملہ کر دیا جائے،لیکن ایک بزرگ، جو کسی چوپائے پر سوار تھا، نے کہا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد پورا کیجیے، عہد شکنی مت کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی آدمی نے کسی قوم سے کوئی عہد کیا ہو تو وہ نہ عہد شکنی کرے اور نہ اس کو مضبوط کرے، یہاں تک کہ مدت ختم ہو جائے یا (ان سے دھوکے کے ڈر کی وجہ سے) انھیں معاہدہ توڑنے کی خبر دے (تاکہ مد مقابل بھی عہد توڑنے میں) اس کے برابر ہو جائے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ لوٹ گئے، یہ بزرگ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(5138)