۔ (۵۱۷۰)۔ عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ رضی اللہ عنہ فِیْ قِصَّۃِ رُجُوْعِھِمْ مِنْ غَزْوَۃِ ذِیْ قَرَدٍ إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہَا قَرِیبًا مِنْ ضَحْوَۃٍ، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَا یُسْبَقُ، جَعَلَ یُنَادِی: ہَلْ مِنْ مُسَابِقٍ أَلَا رَجُلٌ یُسَابِقُ إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَأَعَادَ ذٰلِکَ مِرَارًا، وَأَنَا وَرَائَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مُرْدِفِی، قُلْتُ لَہُ: أَمَا تُکْرِمُ کَرِیمًا وَلَا تَہَابُ شَرِیفًا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی خَلِّنِی فَلَأُسَابِقُ الرَّجُلَ، قَالَ: ((إِنْ شِئْتَ۔)) قُلْتُ: أَذْہَبُ إِلَیْکَ فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِہِ وَثَنَیْتُ رِجْلَیَّ فَطَفَرْتُ عَنْ النَّاقَۃِ ثُمَّ إِنِّی رَبَطْتُ عَلَیْہَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِ یَعْنِی اسْتَبْقَیْتُ نَفْسِی، ثُمَّ إِنِّی عَدَوْتُ حَتّٰی أَلْحَقَہُ فَأَصُکَّ بَیْنَ کَتِفَیْہِ بِیَدَیَّ، قُلْتُ: سَبَقْتُکَ وَاللّٰہِ! أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَ: فَضَحِکَ وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسند أحمد: ۱۶۶۵۴)
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جبکہ وہ غزوۂ ذی قرد سے مدینہ منورہ کی طرف واپسی کا قصہ بیان کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں: ہمارے اور مدینہ کے درمیان نصف النہار کے قریب تک فاصلہ تھا، اس لشکر میں ایک انصاری آدمی تھا، دوڑ میں کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں تھا، وہ اس سفر میں یہ آواز دینے لگ گیا: ہے کوئی مقابلہ کرنے والا، کوئی آدمی ہے جو مدینہ تک دوڑ میں مقابلہ کرے، اس نے کئی بار یہ بات دوہرائی ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنا ردیف بنایا ہوا تھا، میں نے اس آدمی سے کہا: کیا تو کسی کریم کی عزت نہیں کرتا، کیاتجھ پر کسی شرف والے کی کوئی ہیبت نہیں؟ اس نے کہا: نہیں، ما سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے جانے دیں، میں اس کا مقابلہ کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہتا ہے تو کر لے۔ پھر میں نے اس سے کہا: میں آ رہا ہے، اب نیچے اتر اپنی سواری سے، وہ کود کر اپنی سواری سے نیچے آ گیا، میں نے بھی پاؤںموڑا اور اونٹ سے نیچے کود آیا، دوڑ شروع ہو گئی، میں نے ایک دو ٹیلوں تک تو تیز دوڑنے سے گریز کیا، تاکہ سانس کا سلسلہ منقطع نہ ہو جائے، پھر میں تیز دوڑا، یہاں تک اس کو جا ملا اور اس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ مارا اور کہا: اللہ کی قسم میں تجھ سے آگے نکل گیا ہوں، وہ جواباً ہنسا اور اس نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے حتیٰ کہ ہم مدینہ آگئے۔
Musnad Ahmad, Hadith(5170)