۔ (۵۷۳۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّعَدِیِّ أَنَّہُ قَدِمَ عَلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ فِیْ خَلَافَتِہِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: أَ لَمْ أُحَدَّثْ أَنَّکَ تَلِیْ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَاِذَا أُعْطِیْتَ الْعُمَالَۃَ کَرِھْتَہَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ: بَلٰی، فَقَالَ عُمَرُ: فَمَا تُرِیْدُ إِلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ لِیْ أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَیْرٍ وَأُرِیْدُ أَنْ تَکُوْنَ عُمَالَتِیْ صَدَقَۃً عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَـلَا تَفْعَلْ فَإِنِّی قَدْ کُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِیْ أَرَدْتَّ، فَکَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُعْطِیْنِی الْعَطَائَ فأَقُوْلُ أَعْطِہِ أَفْقَرَ اِلیہِ مِنِّی، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((خُذْہُ فَتَمَوَّلْہُ وَتَصَدَّقْ بِہِ، فَمَا جَائَ کَ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ لَا سَائِلٍ فَخُذْہُ وَمَا لَا فَلَاتُتْبِعْہُ نَفْسَکَ)) (مسند احمد: ۱۰۰)
۔ عبداللہ بن سعدی، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کے پاس آئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کو لوگوں کے امور پر مامور کیا جاتا ہے، پھر جب آپ کو اس کی مزدوری دی جاتی ہے تو تم اس کو ناپسند کرتے ہو، کیا بات ایسے ہی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے تمہارا مقصد کیا ہے؟اس نے کہا: میں گھوڑوںاور غلاموں کامالک اور مال والا ہوں، میری خواہش یہ ہے کہ میرییہ خدمت مسلمانوں کے لیے صدقہ قرار پائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا مت کرو، میں نے بھی تمہاری طرح کا ارادہ کیا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا تھا کہ آپ یہ چیز مجھ سے زیادہ ضرورت مندکودے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ یہ لے لو اور اس کو اپنا مال بنا لو اور صدقہ کرو، اس طرح کا جو مال کسی طمع اور سوال کے بغیر مل جائے تو اس کو لے لیا کرو اور اس طرح نہ ملے تو اپنے نفس کو اس کے پیچھے نہ لگایا کرو۔
Musnad Ahmad, Hadith(5735)