Blog
Books



۔ (۵۸۴۷)۔ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تُبَاعُ ثَمْرَۃٌ بِتَمْرٍ وَلَا تُبَاعُ ثَمَرَۃٌ حَتّٰییَبْدُوَ صَلَاحُہَا)) قَالَ: فَلَقِیَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ عبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَ: رَخَّصَ رسَُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْعَرَایَا، قَالَ سُفْیَانُ: اَلْعَرَایَا، نَخْلٌ کَانَتْ تُوْھَبُ لِلْمَسَاکِیْنِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ أَنْ یَنْتَظِرُوْا بِہَا فَیَبِیْعُوْنَہَا بِمَا شَاؤُوْا مِنْ تَمْرٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۱۲)
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درخت پر لگا ہوا پھل کھجوروں کے عوض فروخت نہ کیا جائے اور کوئی بھی پھل اس وقت تک فروخت نہ کیا جائے، جب تک اس کی صلاحیت نمایا ں نہ ہوجائے۔ پھر جب سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے۔امام سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرایا کی صورت یہ ہے کہ کھجور کا درخت مسکینوں کو ہبہ کیا جاتا، لیکن وہ زیادہ اتنظار نہ کر سکتے تھے، اس لیے اسی درخت کے پھل کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی پھل لے کر بیچدیتے تھے۔
Musnad Ahmad, Hadith(5847)
Background
Arabic

Urdu

English