وَعَن
أنس بن مَالك قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالس حَزِين وَقد تخضب بِالدَّمِ من فعل أهل مَكَّة من قُرَيْش فَقَالَ جِبْرِيل يَا رَسُول الله هَل تحب أَن أريك آيَةً قَالَ نَعَمْ فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَائِهِ فَقَالَ ادْعُ بِهَا فَدَعَا بِهَا فَجَاءَتْ وَقَامَت بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ مُرْهَا فَلْتَرْجِعْ فَأَمَرَهَا فَرَجَعَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حسبي حسبي. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جبریل ؑ نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے اور آپ مکہ والوں کے ناروا سلوک سے خون سے رنگین ہو چکے تھے ، انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ایک نشانی دکھائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ جبریل ؑ نے آپ کے پیچھے سے ایک درخت دیکھا ، اور فرمایا : اسے بلائیں ، آپ نے اسے بلایا تو وہ آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا ، پھر آپ نے کہا : اسے واپس جانے کا حکم فرمائیں ، انہوں نے اسے حکم فرمایا تو وہ واپس چلا گیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔