وَقد
يرقى إِلَى الْحسن بِتَعَدُّد طرقه)
وَعَن حَازِم بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ حُبَيْشِ بن خَالِد - وَهُوَ أَخُو أمِّ مَعْبَد - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْرِجَ مِنْ مَكَّةَ خَرَجَ مُهَاجِرًا إِلَى الْمَدِينَةِ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ وَمَوْلَى أَبِي بَكْرٍ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَدَلِيلُهُمَا عَبْدُ اللَّهِ اللَّيْثِي مَرُّوا عَلَى خَيْمَتَيْ أُمِّ مَعْبَدٍ فَسَأَلُوهَا لَحْمًا وَتَمْرًا لِيَشْتَرُوا مِنْهَا فَلَمْ يُصِيبُوا عِنْدَهَا شَيْئًا من ذَلِك وَكَانَ الْقَوْمُ مُرْمِلِينَ مُسْنِتِينَ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَاةٍ فِي كِسْرِ الْخَيْمَةِ فَقَالَ: «مَا هَذِهِ الشَّاةُ يَا أُمَّ معبد؟» قَالَتْ: شَاةٌ خَلَّفَهَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ. قَالَ: «هَلْ بِهَا مِنْ لَبَنٍ؟» قَالَتْ: هِيَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ: «أَتَأْذَنِينَ لِي أَنْ أَحْلِبَهَا؟» قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنْ رَأَيْتَ بِهَا حَلباً فاحلبها. فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ بِيَدِهِ ضَرْعَهَا وَسَمَّى اللَّهَ تَعَالَى وَدَعَا لَهَا فِي شَاتِهَا فتفاجت عَلَيْهِ وَردت وَاجْتَرَّتْ فَدَعَا بِإِنَاءٍ يُرْبِضُ الرَّهْطَ فَحَلَبَ فِيهِ ثجَّاً حَتَّى علاهُ الْبَهَاءُ ثُمَّ سَقَاهَا حَتَّى رَوِيَتْ وَسَقَى أَصْحَابَهُ حَتَّى رَوُوا ثُمَّ شَرِبَ آخِرَهُمْ ثُمَّ حَلَبَ فِيهِ ثَانِيًا بَعْدَ بَدْءٍ حَتَّى مَلَأَ الْإِنَاءَ ثُمَّ غَادَرَهُ عِنْدَهَا وَبَايَعَهَا وَارْتَحَلُوا عَنْهَا. رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي «الِاسْتِيعَابِ» وَابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِ «الْوَفَاءِ» وَفِي الحَدِيث قصَّةٌ
حزام بن ہشام اپنے والد سے ، وہ اپنے دادا حبیش بن خالد ، جو کہ ام معبد کے بھائی ہیں ، سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ سے نکالا گیا تو آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف مہاجر کی حیثیت سے روانہ ہوئے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر اور ابوبکر کے آزاد کردہ غلام عمار بن فہیرہ تھے اور ان کی راہنمائی کرنے والے عبداللہ اللیشی تھے ، وہ ام معبد کے دو خیموں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اس سے گوشت اور کھجور کے متعلق دریافت کیا تا کہ وہ اس سے خرید لیں ۔ لیکن انہیں اس کے ہاں کوئی چیز نہ ملی ، جبکہ ان کے پاس زادِراہ نہیں تھا اور وہ قحط سالی کا شکار ہو چکے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے خیمے کے ایک کونے میں ایک بکری دیکھی تو فرمایا :’’ ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟‘‘ اس نے بتایا کہ یہ لاغر پن کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں جا سکتی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟‘‘ اس نے عرض کیا : یہ اس لائق نہیں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دھو لوں ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، میرے والدین قربان ہوں ، اگر آپ اس میں دودھ دیکھتے ہیں تو ضرور دھو لیں ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے طلب فرمایا ، اس کے تھن کو اپنا دست مبارک لگایا ، اللہ تعالیٰ کا نام لیا ، ام معبد کے لیے اس بکری کے بارے میں دعائے خیر فرمائی ، اس نے پاؤں کھول دیئے ، دودھ چھوڑ دیا ، اور وہ جگالی کرنے لگی ، آپ نے ایک برتن منگایا جو ایک جماعت کو آسودہ کر سکتا تھا ، اس میں دودھ دھویا اور اتنا دھویا کہ اس پر جھاگ آ گیا ، پھر آپ نے ام معبد کو پلایا حتیٰ کہ وہ خوب سیراب ہو گئی ، پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا حتیٰ کہ وہ سیراب ہو گئے ، پھر آپ نے ان سب کے آخر پر خود پیا ، پھر آپ نے اس برتن میں دوسری مرتبہ دودھ دھویا حتیٰ کہ برتن بھر گیا ، اس (دودھ) کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا ، پھر آپ نے اس سے اسلام پر بیعت لی پھر سب اس کے پاس سے کوچ کر گئے ۔ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
شرح السنہ ، ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور ابن الجوزی نے اسے کتاب الوفاء میں روایت کیا ہے ، اور حدیث میں طویل قصہ ہے ۔