۔ (۶۶۳۸) وَعَنْہُ اَیُضًا قَالَ: کُنْتُ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: اِنِّیْ لَأَذْکُرُ أَوَّلَ رَجُلٍ قَطَعَہُ، أُتِیَ بِسَارِقٍ فَأَمَرَ بِقَطْعِہِ وَکَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَأَنَّکَ کَرِھْتَ قَطْعَہُ؟ قَالَ: ((وَمَا یَمْنَعُنِیْ، لَا تَکُوْنُوْا عَوْنًا لِلشَّیْطَانِ عَلٰی أَخِیْکِمْ، إِنَّہُ یَنْبَغِیْ لِلْإِمَامِ إِذَا انْتَہٰی إِلَیْہِ حَدٌّ أَنْ یُقِیْمَہُ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ عَفْوٌ یُحِبُّ الْعَفْوَ {وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ})) (مسند احمد: ۴۱۶۸)
۔ ابو ماجدسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: مجھے وہ پہلا آدمییاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کا ہاتھ کاٹا تھا، ایک چور کو لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ متغیر تھا، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کے کٹنے کو ناپسند کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بھلا کون سے مجھے اس سے روک سکتی ہے، تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو، امام کے لئے یہی زیب دیتا ہے کہ جب اس تک حد کا معاملہ پہنچے تو وہ اسے قائم کر دے، بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: لوگوں کو چاہیے کہ وہ درگزر کریں اور معاف کر دیں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا بہت مہربان ہے۔
Musnad Ahmad, Hadith(6638)