۔ (۶۷۱۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ فِیْمَنْ رَجَمَ الرَّجُلَ یَعْنِی مَاعِزًا اِنَّا لَمَّا رَجَمْنَاہُ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَۃِ فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ! رُدُّوْنِی اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاِنَّ قَوْمِیْ قَتَلُوْنِیْ وَغَرُّوْنِی مِنْ نَفْسِی وَقَالُوْا: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَیْرُ قَاتِلِکَ، قَالَ: فَلَمْ نَنْزَعْ عَنْہُ حَتّٰی فَرَغْنَا مِنْہُ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعْنَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَکَرْنَا لَہُ قَوْلَہُ، فَقَالَ: ((اَلا تَرَکْتُمُ الرَّجُلَ وَجِئْتُمُوْنِی بِہِ؟)) اِنَّمَا أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْ یَتَثَبَّتَ فِیْ أَمْرِہِ۔ (مسند احمد: ۱۵۱۵۵)
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ان افراد میں تھا، جنہوں نے ماعز کو سنگسار کیا تھا، جب ہم نے اس کو سنگسار کیا اور اس نے پتھروں کی تکلیف محسوس کی تو کہا: لوگو! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹاؤ، کیونکہ میری قوم نے مجھے قتل کیا ہے، انھوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے، لوگوں نے کہا: بیشک اللہ کے رسول تو تجھے قتل کرنے والے نہیں ہیں، پس ہم اس سے باز نہ آئے، یہاں تک کہ اس کو رجم کرنے سے فارغ ہو گئے، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹے اور اس کی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے چھوڑ کیوںنہیں دیا تھا اور اسے میرے پاس کیوں نہیں لے آئے تھے؟ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارادہ یہ تھا کہ نصر بن دہراسلمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہماری قوم کا ایک آدمی ماعز بن خالد بن مالک ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اپنے نفس پر زنا کا اقرار کیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کو سنگسار کریں، پس ہم اس کو لے کر حرّۂ بنی نیار کی طرف نکلے اور اس کو رجم کیا، جب اس نے پتھروں کی تکلیف پائی تو وہ سخت بے قرار ہوا، پھر جب ہم اس کو سنگسار کر نے سے فارغ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی بے قراری کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا تھا؟
Musnad Ahmad, Hadith(6711)